وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
” اور جب آپ کے رب نے آدم کے بیٹوں سے ان کی پشتوں میں سے ان کی اولاد کو نکالا اور انہیں خود ان کی جانوں پر گواہ بنایا کیا میں واقعی تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں ہم شہادت دیتے ہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کہو بے شک ہم اس سے غافل تھے۔
ف 12) یعنی جب آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کیا تو ان کی پشت سے تمام ذریت پیدا کی جو قیامت تک انکی نسل سے روئے زمین پر پائی جانے والی تھی اور انہیں عقل اور قوت گو یائی عطا فرماکر ان سے اپنی’’ ربوبیت عامہ‘‘ کا قرار لیا۔ حاٖفظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ’’ ذراول ‘‘کے بارے میں متعدد احادیث بھی وارد ہیں لہذا اس کو ایک تمثیلی واقعہ کہنا صحیح نہیں ہے جبکہ عقلا بھی اس میں کوئی استحالہ نہیں ہے۔ اور حدیث( كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ )که( هر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے)، میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ ( قرطبی، ابن کثیر ) ف أَن تَقُولُواْ یہ اصل میں لئلا تَقُولُواْ یاکر اھة ان تَقُولُواْ ہے یعنی یه عہد تم سے اس لیے لیا کہ ایسانہ ہو کہ تم دنیا میں شرک و نافرمانی کی روش اختیار کرو اور قیامت کے روز تم سے باز پرس کی جائے تو یہ کہہ کر اپنی صفائی پیش کرنے لگے کہ ہم تو اس سے غافل تھے ( کبیر، ابن کثیر)