سورة الاعراف - آیت 163

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ان سے اس بستی کے بارے پوچھو جو سمندر کے کنارے پر تھی جب وہ ہفتے کے دن میں حد سے تجاوز کرتے تھے جب ان کی مچھلیاں ان کے ہفتے کے دن سراٹھائے ہوئے ان کے پاس آتیں اور جس دن ہفتہ نہ ہوتا تو وہ ان کے پاس نہ آتی تھیں اس طرح ہم ان کی آزمائش کرتے تھے اس کی وجہ سے جو وہ نافرمانی کرتے تھے۔ (١٦٣)

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3) فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے انہیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے بار رہیں مگر انہوں نے دریا کے کنا رے سے پانی کاٹ کر حوض تعمیر کرلیے جب ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں آجاتیں تو ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کارتکاب کرنے کے لیے حیلہ سازی بھی حرام ہے حدیث میں ہے لا تر تکبو اما ارتکب الیھود فتسحلوا محارم اللہ باونی الحیل کہ یہود کی طرح شریعت میں حیلے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو۔ ( ابن کثیر) بائیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت کے دن ان کو مکمل طور پر کارو بار بند رکھنے کا حکم تھا مگر وہ اس کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے تھے۔ ف 4 یا پانی سے سر نکالے ہوئے آجاتیں، ف 5 یعنی ان کے فسق کی وجہ سے ان پر یہ سختی کی گئی تھی،۔