وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پاراتارا۔ وہ ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنے بتوں پر جمے بیٹھے تھے کہنے لگے اے موسیٰ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنادے، جیسے ان کے معبود ہیں ؟ اس نے کہا تم تو جاہل لوگ ہو۔
ف 10 یعنی عاشورہ کے روز حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اس دن شکر کا روزہ رکھاجیساکہ صحیحین کی حدیث میں ہے۔ ( ابن کثیر) ف 11 ان کی پوجا کر رہے تھے قتادہ اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ لوگ نجم اور جذام کے قبیلہ سے تھے جو سمندر کے کنارے آباد تھے اور ان کے بت تانبے کی بنی ہوئی گایوں کی مو رتیں تھیں، واللہ اعلم۔ ( ابن جریر ) ف 1 بنی اسرائیل پر انعامات بیان کرنے کے بعد اب اس آیت میں ان کی جہالت اور کفر کو بیان فرمایا، موسیٰ ( علیہ السلام) کے اتنےبیّن معجزات اور انعامات دیکھنے کے بعدان کایہ مطالبہ انتہائی جہالت اور مخالفت پر مبنی تھا، بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل چو نکہ موحد تھے اس لیے ان کی اس بت کے مطالبے سے یہ غرض نہ تھی کہ وہ شرک کریں بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس بت کی تعظیم سے اللہ تعالیٰ کا تقرب چاہیں گے وہ سمجھے کہ یہ شرک نہیں ہے حالانکہ اس کا شرک ہونا انبیا ( علیہ السلام) کا اجماعی مسئلہ ہے جیساکہ قرآن میں دوسری جگہ فرمایا کہ مشرک بتوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سفارشی سمجھ کر پوجتے ہیں اور دوسری آیت میں ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں تقرب کا ذریعہ بناتے ہیں( کذافی الکبیر) ف 2 یعنی افسوس کہ تم اللہ تعالیٰ کی نشانی نہیں پہچانتے، اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے کہ نہ اس کی کوئی مورت بن سکتی ہے اور نہ اس کی عبادت میں کسی کو شریک ٹھہر ایا جاسکتا ہے، پس یہ مطالبہ سراسر مشرکانہ مطالبہ ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں جاہل آدمی نرے بے صورت کی عبادت کر کے تسکین نہیں پاتا جب تک سامنے ایک صورت نہ ہو۔بنی اسرائیل نے جب وہ قوم دیکھی کہ گائے کی صورت کی پوجاکر تے تھے تو انہیں یہ ہوس آئی۔ آخر سو نے کا بچھڑا بنایا اور پوجا۔ (مو ضح)