سورة الاعراف - آیت 137

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۖ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا ۖ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ہم نے ان لوگوں کو جو کمزور سمجھے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے اور آپ کے رب کی بہترین بات بنی اسرائیل پر پوری ہوگئی اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور فرعون اور اس کی قوم کے لوگ جو کچھ بناتے تھے اور جو وہ عمارتیں بلند کرتے تھے ہم نے سب کو برباد کردیا۔“

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم سے دو وعدے کئے تھے، دشمن کی ہلاکت اور ملک کی وراثت اور خلافت چنانچہ پہلا وعدہ پورا ہونے کے بعد اب یہاں دوسرے وعدے کی تکمیل کا بیان ہے، یہاں مبارک سرزمین سے شام کی سرزمین مراد ہے اور یہ وعدہ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی وفات کے بعد حضرت یو شع ( علیہ السلام) کے دور میں پورا ہونا شروع ہوا جب کہ انہوں نے عمالقہ سے جہادکر کے بعض علاقے اپنے قبضے میں لے لیے مگر پورا ملک شام حضرت داوؤد ( علیہ السلام) اور سلیمان ( علیہ السلام) کے عہد میں قبضہ میں آیا۔ (کبیر) اور بعض نے مصر اور شام دونوں مراد لیے ہیں اور لکھا ہے کہ فرعون کی تباہی کے بعد بنی اسرائیل مدتوں مصر پر حکمران رہے، قرآن کی بعض آیات سے اس کی تائید ہوتی ہے ( دیکھئے سورۃ دخان و سورۃ قصص آیت 5 )