إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ
” بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور انہیں قبول کرنے سے تکبر کیا ان کے لیے نہ آسمان کے دروازے کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے کے اندر سے نہ گزر جائے اور ہم مجرموں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔
ف 2 اوپر کی آیت میں جو وعید مذکور ہے یہ کہ اس کا تتمہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ آسمانوں کے دروازے ہیں بہت سی صحیح احادیث میں ان دروازوں کا ذکر موجود ہے۔ دروازے نہ کھولے جانے کا مطلب تو یہ ہے کہ ان کے اعمال اور دعا کے اوپر جانے کے لیے دروازے نہیں کھلتے یا یہ کہ مرنے کے بعد ان کی اراوح کے لیے دروازے نہیں کھلتے جیساکہ مومن کی روح کے صعود کے لیے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک طویل حدیث کے ضمن میں ہے کہ مومن کی روح اوپر چڑھتی ہے تو اس کے لیے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور فرشتے مرحبا کہہ کر اس کا استقبال کرتے ہیں حتی کہ وہ ساتویں آسمان پر چلی جاتی ہے مگر جب کافر کی روح آسمان تک پہنچتی ہے تو اس کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا بلکہ اسے زجر و توبیخ کے ساتھ واپس کردیا جاتا ہے بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ ان پر خیر وبرکت نازل نہیں ہوتی، بہر حال آیت میں بہت بڑی وعید اور تہدید ہے۔ ( کبیر) ف 3 یہ تعلیق بالمحال کے قبیل سے ہے اور اونٹ چونکہ باعتبار جسامت بڑاجانور ہے اس لیے اس کے داخل ہونے کا ذکر کردیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ان کا جنت میں داخل ہونا اتنا ہی محال ہے جتنا اونٹ کا سوئی کے ناکے میں داخل ہونامحال ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ یہاں ’’ا ٱلۡجَمَلُ ‘‘ کے معنی موٹے رسے کے ہیں اور سوئی کے ساتھ اس کا ذکر زیادہ مناسب ہے۔ (کبیر۔ ابن کثیر )