اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔ بہت کم تم نصیحت قبول کرتے ہو۔
اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ: رسالت ( پیغام پہنچانے) کا معاملہ تین افراد کے درمیان ہوتا ہے : ’’مُرْسِلٌ ‘‘ پیغام بھیجنے والا، یعنی اﷲ تعالیٰ، ’’مُرْسَلْ ‘‘ جسے پیغام دے کر بھیجا جائے، یعنی رسول اور ’’مُرْسَلٌ اِلَيْهِ ‘‘ ’’جس کی طرف پیغام بھیجا جائے، یعنی امت۔ پچھلی آیت میں رسول کو انذار (ڈرانے) اور تذکیر (نصیحت کرنے) کا حکم ہے، اس آیت میں امت کو صرف اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ احکام کی پیروی کا اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے کی پیروی نہ کرنے کا حکم ہے، کیونکہ اﷲ کے نازل کردہ کے سوا کسی بھی دوسرے کی پیروی کرنا اﷲ کے مقابلے میں غیر اﷲ (من دون اﷲ) کو اولیاء بنانا ہے۔ حکم صرف اﷲ کا حق ہے، جسے پہنچانا رسول کی ذمہ داری ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن اور حدیث دونوں وحی کے ذریعے سے نازل ہوئے، اس لیے رسول کا ہر حکم اﷲ کا حکم ہے، سو اسی کی پیروی کرو، قرآن و سنت کے مقابلے میں کسی کی بات مت مانو، خواہ وہ کتنا ہی بڑا امام، بزرگ، محقق یا دانش ور ہو، ہر ایک کی بات کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ ﴿اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ ﴾ [ المائدۃ : ۳ ] کے مطابق دین کا ہر مسئلہ قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ اگر کوئی بات قرآن و حدیث میں صریح الفاظ میں نہ ملے تو کسی آیت یا حدیث میں اس کی طرف اشارہ ضرور ہو گا، اس کے لیے کسی بھی بڑے عالم سے پوچھ سکتے ہیں۔ کسی ایک ہی کی ہر بات کی تقلید، خواہ وہ صحیح ہو یا غلط، تو یہ ’’مِنْ دُونِهِ اَوْلِيَاءَ‘‘ کی طرف لے جائے گی، جس سے اﷲ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔