إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور کئی گروہ بن گئے، تو کسی چیز میں بھی ان سے نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ انھیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ ....: یعنی اصل دین شروع سے ایک ہی ہے جس کی بنیاد اﷲ کی توحید، یوم آخرت اور انبیاء پر ایمان اور ان کی اطاعت پر ہے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۵۲، ۵۳)، سورۂ یونس (۱۹)، سورۂ انعام (۱۵۳) اور سورۂ بقرہ (۲۱۳)۔ اپنے اپنے زمانے کے مطابق احکام میں کچھ فرق ہو سکتا ہے مگر اصل سب کا ایک اسلام ہی ہے۔ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر اﷲ تعالیٰ نے قیامت تک ہر شخص کے لیے آپ پر ایمان لانا اور آپ کے طریقے پر چلنا لازم قرار دے دیا۔ اب جو شخص بھی اپنا کوئی جدا راستہ اختیار کر کے الگ گروہ بنائے، خواہ وہ دہریہ ہو یا مشرک یا یہودی یا نصرانی، اﷲ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے رہے ہیں کہ آپ ان سے بری ہیں اور آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح آپ کی امت میں سے اسلام قبول کرنے کے بعد جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول کے احکام، یعنی قرآن و سنت کے علاوہ کوئی نیا طریقہ یعنی بدعت اختیار کر کے اپنا الگ گروہ بنا لیں، آپ ان سے بری ہیں، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہود ۷۱ یا ۷۲ فرقوں میں اور نصاریٰ بھی اتنے ہی فرقوں میں جدا جدا ہو گئے اور میری امت تہتر(۷۳) فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔‘‘ [ أبو داؤد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ۴۵۹۶۔ ترمذی : ۲۶۴۰۔ ابن ماجہ: ۳۹۹۲۔ ابن حبان : ۶۷۳۱ ] معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے اور فرمایا : ’’یاد رکھو، تم سے پہلے اہل کتاب ۷۲ ملتوں میں فرقہ فرقہ ہو گئے اور یہ ملت ۷۳ ملتوں میں فرقہ فرقہ ہو جائے گی، ۷۲ آگ میں ہوں گے اور ایک جنت میں اور وہ جماعۃ ہے۔‘‘ [ أبو داؤد، السنۃ، باب شرح السنۃ : ۴۵۹۷۔ أحمد :4؍102، ح : ۱۶۹۴۰ ] عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے : ’’وہ سب آگ میں ہوں گے مگر ایک ملت۔‘‘ لوگوں نے پوچھا : ’’یا رسول اﷲ ! وہ کون ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ أَصْحَابِيْ )) ’’جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ [ ترمذی، الإیمان، باب ما جاء فی افتراق ھٰذہ الأمۃ : ۲۶۴۱ ] اس حدیث کے مزید حوالوں اور صحت کے لیے دیکھیے [السلسلة الصحيحة :1؍402 تا ۴۱۴، ح : ۲۰۳، ۲۰۴ ] یاد رہے کہ سوچ اور اجتہاد کا اختلاف یا علم نہ ہو سکنے کی وجہ سے اختلاف تو صحابہ اور تابعین میں بھی پایا جاتا تھا، مگر وہ سب ایک ہی جماعت تھے، انھوں نے کسی شخصیت کی تقلید کی خاطر فرقے نہیں بنائے تھے۔ مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنا اپنا الگ پیشوا بنا کر اس کی ہر صحیح اور غلط بات کو دین قرار دے کر الگ فرقہ بنا لیا۔ یہ چیز مسلمانوں کے تین بہترین زمانوں میں نہیں تھی، پہلے انبیاء کی امتوں کو اسی چیز نے برباد کیا اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بگاڑ کا باعث بھی یہی بات بنی کہ قرآن و حدیث کا واضح حکم آنے کے بعد بھی کچھ لوگ اپنے دھڑے کی وجہ سے اپنے امام یا مرشد کی غلط باتوں پر اڑ کر الگ الگ ہو گئے اور مسلمانوں کا شخصیتوں کی بنیاد پر بنے ہوئے فرقوں کو چھوڑ کر کتاب و سنت پر جمع ہونا ایک خواب ہی رہ گیا جس کی تعبیر کسی زبردست خلیفہ یا مہدی یا مسیح علیہ السلام ہی کے ذریعے سے پوری ہوتی نظر آ رہی ہے۔