سورة الانعام - آیت 158

هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِن قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تیرا رب آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آئے، جس دن تیرے رب کی کوئی نشانی آئے گی کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی۔ کہہ دے انتظار کرو، بے شک ہم (بھی) منتظر ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِيَهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ: کفار پر اسلام کے حق ہونے کے دلائل تو پوری طرح واضح ہو چکے تھے، مگر وہ صرف لاجواب کرنے کے لیے ایسی چیزیں دکھانے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے جن کا دنیا میں ہوتے ہوئے دکھایا جانا ممکن ہی نہیں، کیونکہ ان کے آنے کے بعد اپنے اختیار سے غیب پر ایمان کا موقع ہی باقی نہیں رہتا، نہ ان کے آنے کے بعد کسی کی مجال ہے کہ وہ ایمان نہ لائے، مگر اس وقت ایمان لانے کا کچھ فائدہ نہیں۔ ان مطالبات کا قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل(۹۰ تا ۹۳) میں اکٹھے نو مطالبات پیش کیے گئے ہیں، جن میں نہایت گستاخانہ مطالبہ خود اﷲ تعالیٰ اور فرشتوں کو سامنے لانے کا تھا ﴿اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِيْلًا﴾ [ بنی إسرائیل : ۹۲ ] ’’یا تو اﷲ اور فرشتوں کو سامنے لے آئے۔‘‘ سورۂ فرقان میں بھی یہ مطالبہ ذکر فرمایا، جیسا کہ فرمایا : ﴿لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا﴾ [ الفرقان : ۲۱ ] ’’ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے، یا ہم اپنے رب کو دیکھتے؟‘‘ اس مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان پر حجت تو پوری ہو چکی، یعنی : ﴿فَقَدْ جَآءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ ﴾ [ الأنعام : ۱۵۷ ] اب دلیل کی تو نہ انھیں ضرورت ہے نہ ان کا مطالبہ، اب اس کے سوا انھیں کیا انتظار ہے کہ ان کے پاس فرشتے آ جائیں، یا تیرا رب خود آئے، یا تیرے رب کی کوئی نشانی آ جائے۔ مگر فرشتے آئے تو موت یا عذاب لے کر آئیں گے، پھر ایمان کی مہلت کہاں ؟ جیسا کہ فرمایا : ﴿مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَا كَانُوْۤا اِذًا مُّنْظَرِيْنَ﴾ [ الحجر : ۸ ] ’’ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق کے ساتھ اور اس وقت وہ مہلت دیے گئے نہیں ہوتے۔‘‘ اور اﷲ تعالیٰ آئے گا تو قیامت کے دن فیصلے کے لیے فرشتوں کے ساتھ آئے گا : ﴿كَلَّاۤ اِذَا دُكَّتِ الْاَرْضُ دَكًّا دَكًّا(21) وَّ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا﴾ [ الفجر: ۲۱، ۲۲ ] ’’ہرگز نہیں، جب زمین کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دی جائے گی اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔‘‘ پھر تو دنیا کا کام ہی تمام ہو جائے گا، فرمایا : ﴿هَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ قُضِيَ الْاَمْرُ ﴾ [ البقرۃ : ۲۱۰ ] ’’وہ اس کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں کہ ان کے پاس اﷲ بادل کے سائبانوں میں آ جائے اور فرشتے بھی اور کام تمام کر دیا جائے۔‘‘ اور تیرے رب کی بعض نشانیوں سے مراد خاص نشانیاں ہیں، جن کی تفصیل آ رہی ہے۔ 2۔ بعض لوگ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کے آنے کے منکر ہیں اور کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اﷲ تعالیٰ کے آنے کا مطلب اس کے حکم کا یا عذاب کا آنا ہے، یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے زمین و آسمان کو پیدا فرما کر عرش پر بلند ہونے کے بھی منکر ہیں اور اس کے آسمان دنیا پر اترنے کے بھی، بلکہ عرش کو بھی نہیں مانتے۔ سورۂ حاقہ (۱۷) میں ہے کہ قیامت کے دن اﷲ کا عرش آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے۔ یہاں لاجواب ہو کر کہتے ہیں کہ یہ متشابہات سے ہے، مگر اﷲ تعالیٰ کا آنا پھر بھی نہیں مانتے۔ اﷲ کے بندو ! تم نے اﷲ تعالیٰ کو اپنے سے بھی عاجز سمجھ لیا کہ تم اپنی مرضی سے جہاں جانا چاہو جاؤ، مگر اﷲ تعالیٰ کے لیے اپنی مرضی سے آنا جانا ممکن ہی نہیں مانتے۔ یہ سب نتیجہ یونانی فلسفے اور ان کے خدا کے متعلق تصورات سے متاثر ہونے کا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ہمارا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ عرش پر ہے، ہر رات آسمانِ دنیا پر اترتا ہے، قیامت کے دن زمین پر آئے گا اور زمین اس کے نور سے روشن ہو جائے گی، مگر اس کا آنا مخلوق کی طرح نہیں، بلکہ اس طرح ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔ اَوْ يَاْتِيَ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ: اس سے مراد صحیح احادیث کے مطابق قیامت کے قریب نمودار ہونے والی چند نشانیاں ہیں، جن میں سے سب سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانی سورج کا مغرب کی طرف سے طلوع ہونا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہو گا، جب اسے لوگ دیکھیں گے تو جو بھی زمین پر ہوں گے ایمان لے آئیں گے، تو یہ وہ وقت ہو گا جب کسی جان کو اس کا ایمان فائدہ نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لائی ہو گی۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب ﴿لا ينفع نفسا إيمانها﴾ : ۴۶۳۵ ] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تین نشانیاں جب نمودار ہوں گی تو کسی شخص کو اس کا ایمان فائدہ نہ دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا تھا، یا اپنے ایمان میں کوئی نیکی نہ کمائی تھی، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال کا آنا اور زمین سے جانور کا نکلنا۔‘‘ [ مسلم، الإیمان، باب بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الإیمان : ۱۵۸ ] عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے پہلے نکلنے والی نشانی مغرب سے سورج کا طلوع ہونا ہے اور زمین سے ایک جانور کا دوپہر کے وقت لوگوں کے سامنے نکلنا ہے۔ دونوں میں سے جو بھی پہلے ہوئی دوسری قریب ہی اس کے پیچھے ہو گی۔‘‘ [ مسلم، الفتن، باب فی خروج الدجال و مکثہ فی الأرض....: ۲۹۴۱ ] اس جانور کا ذکر سورۂ نمل(۸۲) میں بھی ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مراد قیامت کی کوئی بھی بڑی نشانی ہے جس کے بعد اختیار ختم ہو جائے گا اور ایمان لانے اور توبہ کرنے کے بغیر چارہ ہی نہیں رہے گا، البتہ اکثر اہل ایمان کا رجحان مغرب سے سورج طلوع ہونے کی طرف ہے، جیسا کہ ہمارے استاد مولانا محمد عبدہٗ رحمہ اللہ نے صرف اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ يَوْمَ يَاْتِيْ بَعْضُ اٰيٰتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ ....: طبری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ کسی کافر کو جو سورج کے مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے ایمان نہ لایا ہو اس کے طلوع ہونے کے بعد اس کا ایمان لانا اسے کوئی نفع نہیں دے گا اور کسی مومن کو بھی، جس نے طلوع سے پہلے نیک عمل نہ کیا ہو گا طلوع کے بعد وہ اسے نفع نہیں دے گا، کیونکہ اس وقت ایمان اور عمل کا حکم اس شخص کے ایمان و عمل جیسا ہے جو موت کے غرغرہ کے وقت ایمان لائے یا عمل کرے، جبکہ اس کا کوئی فائدہ نہیں، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا ﴾ [ المؤمن : ۸۵ ] ’’ پھر یہ نہ تھا کہ ان کا ایمان انھیں فائدہ دیتا جب انھوں نے ہمارا عذاب دیکھ لیا۔‘‘ اور جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے جب تک اس کا غرغرہ (موت کے وقت گلا بولنا) شروع نہ ہو۔ (ترمذی : ۳۵۳۷) اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب کافر اس دن ایمان لائے گا تو اس سے قبول نہیں ہو گا لیکن جو اس سے پہلے مومن ہو گا تو اگر اپنے عمل میں درست ہو گا تو وہ بہت بڑی بھلائی پر ہو گا اور اگر درست نہیں ہو گا اور اس وقت توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی، جیسا کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے اور یہی مطلب ہو گا ﴿أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَاخَيْرًا﴾ کا، یعنی اس کا نیک عمل اس وقت قبول نہیں ہو گا جب وہ اس سے پہلے اسے کرنے والا نہ ہو گا۔ قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ: ایمان لانے اور نافرمانی ترک کرنے میں دیر کرنے والوں کے لیے شدید دھمکی ہے۔ دیکھیے سورۂ محمد (۱۸) اور سورۂ مومن (۸۴، ۸۵)۔