سورة البقرة - آیت 87

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور بلاشبہ یقیناً ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے بعد پے در پے بہت سے رسول بھیجے اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو واضح نشانیاں دیں اور اسے پاک روح کے ساتھ قوت بخشی۔ پھر کیا جب کبھی کوئی رسول تمھارے پاس وہ چیز لے کر آیا جسے تمھارے دل نہ چاہتے تھے، تم نے تکبر کیا تو ایک گروہ کو جھٹلا دیا اور ایک گروہ کو قتل کرتے رہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ یعنی موسیٰ علیہ السلام کے بعد آنے والے جن انبیاء و رسل کا نام قرآن مجید میں آیا ہے وہ ہارون، ذوالکفل، الیاس، الیسع، داؤد، سلیمان، عزیر، یونس، زکریا، یحییٰ اور عیسیٰ علیہم السلام ہیں ، حدیث میں یوشع بن نون علیہ السلام کا ذکر بھی آیا ہے۔ لقمان علیہ السلام کے نبی ہونے میں اختلاف ہے۔ بہت سے رسولوں کا تذکرہ قرآن میں نہیں کیا گیا، دیکھیے سورۂ مؤمن( ۷۸)۔ الْبَيِّنٰتِ: اس سے مراد معجزے ہیں ، جو عیسیٰ علیہ السلام کو دیے گئے، جیسے مردوں کو زندہ کرنا، مٹی سے پرندے کی شکل بنا کر اس میں روح پھونکنے سے پرندہ بن جانا، اندھے اور برص کے مریض کو تندرست کرنا وغیرہ، جن کا ذکر سورۂ آل عمران( ۴۹) اور مائدہ (۱۱۰) میں آیا ہے۔ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: اس سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں ۔ زمخشری رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’ بِالرُّوْحِ الْمُقَدَّسَةِ كَمَا تَقُوْلُ حَاتِمُ الْجُوْدِ وَ رَجُلُ صِدْقٍ ‘‘ گویا ’’روح‘‘ موصوف ہے، جو اپنی صفت کی طرف مضاف ہے اور ’’قدس ‘‘ مصدر ہے جو اسم مفعول کے معنی میں ہے، یعنی پاک روح، جیسا کہ ’’حَاتِمٌ‘‘ کو اس کی صفت ’’ اَلْجُوْدُ ‘‘ کی طرف مضاف کیا گیا، جبکہ ”اَلْجُوْدُ“ مصدر بمعنی ’’اَلْجَوَادُ ‘‘ ہے، یعنی سخی اور ’’رَجُلٌ‘‘ کو اس کی صفت ’’ صِدْقٌ‘‘ کی طرف مضاف کیا گیا، جو ’’صَادِقٌ‘‘ کے معنی میں ہے، یعنی سچا آدمی۔ (الکشاف) بعض اہل علم نے فرمایا : ’’ الْقُدُسِ ‘‘ اللہ تعالیٰ ہے، کیونکہ وہ سراسر پاک ہے، روح اس کی طرف مضاف ہے، گویا روح القدس کا معنی ہوا روح اللہ، اگرچہ تمام روحوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، مگر جبریل علیہ السلام کی خصوصی عزت افزائی کے لیے انھیں روح اللہ کہا گیا، جیسا کہ ’’بیت اللہ‘‘ اور ’’ناقۃ اللہ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ سب گھروں کا مالک اللہ ہی ہے اور سب اونٹنیاں اللہ ہی کی ہیں ، مگر کعبہ کو اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ان الفاظ کے ساتھ خاص شرف عطا ہوا۔اس بات کی دلیل کہ روح القدس سے مراد جبریل علیہ السلام ہی ہیں ، یہ ہے کہ سورۂ شعراء (۱۹۳) میں جبریل علیہ السلام کو ”الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ“ فرمایا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا : (( اَللّٰهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ)) ’’اے اللہ ! اس کو روح القدس کے ساتھ قوت بخش۔‘‘ [ بخاری، الصلوۃ، باب الشعر فی المسجد : ۴۵۳ ] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوقریظہ سے جنگ والے دن حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : (( اُهْجُ الْمُشْرِكِيْنَ فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَكَ ))’’مشرکین کی ہجو کر کیونکہ یقیناً جبریل تیرے ساتھ ہے۔‘‘ [ بخاری، المغازی، باب مرجع النبی صلی اللہ علیہ وسلم من الأحزاب : ۴۱۲۴ ] معلوم ہوا کہ روح القدس جبریل ہی ہیں ۔ 4۔ اگرچہ تمام انبیاء کو بینات عطا ہوئے اور جبریل علیہ السلام کے ذریعے سے وحی ہوئی، مگر عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ معجزوں اور روح القدس کی تائید کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا گیا کہ یہود نے اتنے برگزیدہ پیغمبر کو بھی جھٹلا دیا، بلکہ انھیں اپنے خیال میں سولی پر چڑھا دیا، پھر اسے اپنا فخریہ کارنامہ قرار دیا : ﴿ وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيْحَ عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوْا فِيْهِ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْهُ يَقِيْنًا ﴾ [ النساء : ۱۵۷ ] ’’ اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے (ہم نے ان پر لعنت کی) کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنا دیا گیا اور بے شک وہ لوگ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، یقیناً اس کے متعلق بڑے شک میں ہیں ، انھیں اس کے متعلق گمان کی پیروی کے سوا کچھ علم نہیں اور انھوں نے اسے یقیناً قتل نہیں کیا۔‘‘ وَ فَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ: دیکھیے سورۂ بقرہ آیت (۶۱) کی تفسیر۔