أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور منصف تلاش کروں، حالانکہ اسی نے تمھاری طرف یہ کتاب مفصل نازل کی ہے اور وہ لوگ جنھیں ہم نے کتاب دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ یقیناً یہ تیرے رب کی طرف سے حق کے ساتھ نازل کی ہوئی ہے، پس تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو۔
1۔ اَفَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْتَغِيْ حَكَمًا....: اوپر کی آیات میں یہ بتا دیا کہ یہ کفار کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے، لہٰذا ان کے لیے آیات کا نازل کرنا بے فائدہ ہے۔ اب یہاں بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے جو مفصل کتاب نازل فرمائی ہے وہ آپ کی نبوت کے سچا ہونے پر دلیل کے لیے کافی ہے۔ کفار مکہ یہ چاہتے تھے کہ ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جو مخالفت ہے اس کے بارے میں اہل کتاب یا کسی اور کو حکم بنا لیا جائے، پھر جو فیصلہ وہ دیں اسے تسلیم کر لیا جائے، اس آیت میں ان کی اس تجویز کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کیا میں اﷲ کے علاوہ کوئی اور منصف تلاش کروں۔ 2۔ يَعْلَمُوْنَ اَنَّهٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ: کیونکہ ان کے انبیاء بھی انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت دیتے رہے ہیں اور ان کی کتابوں میں بھی آپ کی علامات موجود ہیں۔ 3۔ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ: یعنی اس بارے میں کہ اہل کتاب کے دلوں میں قرآن کے سچا ہونے کا یقین ہے۔ خطاب تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر اس سے مراد سارے مسلمان ہیں۔ (رازی)