وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ
اور اگر واقعی ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مردے گفتگو کرتے اور ہم ہر چیز ان کے پاس سامنے لا جمع کرتے تو بھی وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ اللہ چاہے اور لیکن ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔
1۔ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ....:پچھلی آیت : ﴿وَ مَا يُشْعِرُكُمْ اَنَّهَاۤ اِذَا جَآءَتْ لَا يُؤْمِنُوْنَ﴾ میں جو بات مختصر بیان کی گئی تھی یہاں اسی کی تفصیل ہے، یعنی اگر ہم ان کے تمام مطالبات پورے کر دیں، جیسے فرشتوں کو نازل کرنا اور مُردوں کا کلام کرنا وغیرہ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہم ہر چیز گروہ در گروہ یا آمنے سامنے لا کھڑی کر دیں تو پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ ہر چیز سے مراد ان کے مطالبات میں سے ہر چیز ہے، کیونکہ ’’كُلَّ‘‘ کے لفظ سے موقع کے مناسب ہر چیز مراد ہوتی ہے، جیسا کہ ہدہد نے ملکۂ سبا سے متعلق کہا : ﴿وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ﴾ [النمل : ۲۳ ] ’’اور اسے ہر چیز دی گئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ ہر چیز تو اسے نہیں دی گئی تھی، حکومت و سلطنت سے متعلقہ اشیاء ہی عنایت کی گئی تھیں۔ 2۔ اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ : مگر اﷲ چاہے تو ضدی سے ضدی منکر کو بھی ایمان سے نواز سکتا ہے، جیسا کہ بعد میں عرب کے بے شمار عناد رکھنے والے کافر بھی مکہ فتح ہونے پر مسلمان ہو گئے۔ یہ مسلمانوں کے لیے بشارت کے الفاظ ہیں۔ 3۔ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ: یہاں وہ جہل مراد نہیں جو علم کے مقابلے میں ہوتا ہے، بلکہ وہ جہل ہے جو حلم کے مقابلے میں ہوتا ہے، یعنی اکھڑ پن یعنی بعض حلم والے بھی ان میں موجود ہیں۔