وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِّن شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِّلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ
اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی، جو اس کی قدر کا حق تھا، جب انھوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ کہہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لے کر آیا ؟ جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، تم اسے چند ورق بناتے ہو، جنھیں ظاہر کرتے ہو اور بہت سے چھپاتے ہو اور تمھیں وہ علم دیا گیا جو نہ تم نے جانا اور نہ تمھارے باپ دادا نے۔ کہہ اللہ نے، پھر انھیں چھوڑ دے، اپنی (فضول) بحث میں کھیلتے رہیں۔
وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖۤ ....: یہ خطاب یہود کو ہے، جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی اور بغض و عناد کی بنا پر ایسی حقیقت کا انکار کر دیا جسے وہ خود بھی مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی کتاب نازل نہیں فرمائی۔ اس آیت میں ان کے اعتراض کا دو طرح سے جواب دیا گیا، ایک یہ کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر اور اسے پہچاننے کا جو حق تھا اس کے مطابق انھوں نے اسے پہچانا ہی نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نہ خود لوگوں سے کلام کرتا ہے اور نہ اس کام کے لیے کوئی فرشتہ بھیجتا ہے۔ اس کی ممکن صورت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا کلام فرشتوں کے ذریعے سے صرف نبی پر نازل فرمائے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ تو تم بھی مانتے ہو کہ موسیٰ علیہ السلام بشر تھے، آدم علیہ السلام کی اولاد سے تھے، ان کے ماں باپ بھی تھے، تو ان پر جو کتاب اتاری گئی تھی وہ کس نے اتاری تھی ؟ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے نہیں اتاری تھی تو پھر تم اسے اتنا سنبھال سنبھال کر کیوں رکھتے ہو؟ اور اس کتاب میں جو ہدایت کی باتیں اور علم کی روشنی ہے کیا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ایسی باتیں بتا سکتا ہے ؟ جو ہدایت کی باتیں اس کتاب میں موجود ہیں انھیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمھارے آباء و اجداد، پھر تمھارا اس کتاب کا کچھ حصہ لوگوں کو بتانا اور اپنی خواہشات کے مطابق کچھ حصہ چھپانا، یہ سب کچھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے اور تمھارے لیے حجت ہے، ورنہ اگر یہ کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو تمھیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کہہ دیجیے کہ موسیٰ علیہ السلام پر تورات اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ علوم اور معارف اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی ملے ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی تو پھر رسولوں پر بالعموم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بالخصوص وحی کے نازل ہونے کا انکار تم کیسے کر سکتے ہو ؟یہ سارا خطاب کفارِ مکہ کو بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کے نبی ہونے کو وہ بھی مانتے تھے۔ ’’قَرَاطِيْسَ ‘‘ یہ ’’قِرْطَاسٌ‘‘ کی جمع ہے، یعنی ورق، کاغذ، یعنی یہودی تورات کو ایک کتاب کی طرح جمع کرنے کے بجائے الگ الگ ورقوں کی صورت میں رکھتے تھے اور اپنے مطلب کا ورق نکال کر دکھا دیتے تھے۔