فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ
پس ان لوگوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں، پس ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو وہ کماتے ہیں۔
1۔ یہ تعلیم یافتہ طبقے کی حالت ہے کہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے کے لیے غلط فتوے دیتے رہتے ہیں ۔ وہ محض دنیا کمانے کے لیے عوام کو ان کی خواہشات کے مطابق باتیں جوڑ کر لکھ دیتے ہیں اور انھیں بڑی جرأت اور ڈھٹائی سے اللہ اور رسول کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ، ان سے کوئی مسئلہ پوچھا جائے تو وہ اللہ اور اس کے رسول کا فرمان بتانے کے بجائے اپنا یا اپنے کسی بزرگ کا قول پیش کر کے باور یہ کرواتے ہیں کہ یہ عین شریعت ہے۔ افسوس اکثر مسلمانوں کا بھی یہی حال ہو گیا ہے کہ انھوں نے امتیوں کے اقوال کو شریعت قرار دے دیا اور قرآن و حدیث پر چلنے والوں کو لا مذہب قرار دے دیا۔ 2۔” وَيْلٌ“ کا معنی ہلاکت اور تباہی ہے، اس پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ بڑی ہلاکت کیا گیا ہے۔ سنن ترمذی کی جس مرفوع روایت میں ہے : ’’ویل جہنم کی ایک وادی کا نام ہے، کافر ستر سال تک اس کی گہرائی میں گرتا جائے گا مگر اس کی گہرائی تک نہ پہنچے گا ‘‘ یہ روایت صحیح نہیں ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف ترمذی(۳۱۶۴) میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ 3۔ اس آیت پر ان حضرات کو خاص طور پر غور کرنا چاہیے جو قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے صحیح احادیث کو چھوڑ کر تورات، انجیل اور تلمود کے ساتھ شوق فرماتے ہیں ، جن میں تحریف کی اللہ تعالیٰ نے شہادت دی ہے اور جن میں انبیاء علیہم السلام پر تہمتیں ، بے سرو پا باتیں اور آیات کا باہمی تضاد لفظی تحریف کا واضح ثبوت ہیں ۔ ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ’’تم اہل کتاب سے کسی بھی خبر کے متعلق کیوں پوچھتے ہو، جب کہ تمھاری کتاب جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، سب سے نئی ہے؟ تم اسے خالص اور ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک پڑھتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمھیں بتایا ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتاب کو بدل دیا اور انھوں نے اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ کر کہا کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے سے دنیا کا تھوڑا سا مال کما لیں ۔ کیا تمھارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمھیں ان سے دریافت کرنے سے روکتا نہیں ؟ قسم ہے اللہ کی ! ہم نے ان میں سے کسی شخص کو نہیں دیکھا کہ وہ تم سے اس چیز کے بارے میں دریافت کرتا ہو جو تم پر نازل کی گئی۔‘‘ [ بخاری، الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا تسألوا.... : ۷۳۶۳ ] 4۔ بعض لوگوں نے قرآن مجید کی فروخت کو ناجائز قرار دیا ہے، مگر اس آیت کا یہ مطلب نہیں ، اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دنیوی مفاد کے لیے اپنے پاس سے غلط باتیں لکھ کر اسے اللہ کا کلام باور کرواتے ہیں ۔ دیکھیے سورۂ بقرہ(۴۱)۔