وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُن فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ
اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا اور جس دن کہے گا ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہوجائے گا۔ اس کی بات ہی سچی ہے اور اسی کی بادشاہی ہوگی، جس دن صور میں پھونکا جائے گا، غیب اور حاضر کو جاننے والا ہے اور وہی کمال حکمت والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
1۔ وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ ....: یعنی اللہ تعالیٰ ہی نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، لیکن بے مقصد اور کھیل کے لیے نہیں بلکہ حق، یعنی خاص مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے، وہ مقصد کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا : ﴿لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ [الملک : ۶] ’’تاکہ وہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔‘‘ اور انسان اور جن کی تخلیق کا مقصد یہ بیان فرمایا : ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ﴾ [الذاریات : ۵۶] ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا، مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ دوسری آیت میں فرمایا : ﴿وَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ﴾ [ الجاثیۃ : ۱۳] ’’ اور اس نے تمھاری خاطر جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنی طرف سے مسخر کر دیا۔‘‘ اور فرمایا : ﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا﴾ [ البقرۃ : ۲۹ ] ’’وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ بھی ہے سب تمھارے لیے پیدا فرمایا۔‘‘ معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ انسان کے فائدے اور اس کی آزمائش کے لیے ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ 2۔ وَ يَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُوْنُ: یعنی حشر کے دن جب وہ تمام مردوں کو زندہ کرنا چاہے گا تو اللہ تعالیٰ کے لفظ ’’ كُنْ ‘‘ کہنے سے تمام مردے زندہ ہو جائیں گے۔ 3۔ وَ لَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ: یعنی دنیا میں مجازی طور پر جن کو بادشاہ کہا جاتا تھا ان کی مجازی بادشاہت بھی ختم ہو جائے گی، اللہ فرمائے گا : ﴿لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ﴾ [المؤمن : ۱۶ ] ’’آج کس کی بادشاہی ہے، صرف اللہ کی جو ایک ہے، زبردست ہے۔‘‘ نیز دیکھیے سورۂ فاتحہ میں ’’مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘ کی تفسیر۔ ’’الصُّوْرِ ‘‘ کیا چیز ہے ؟ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا، اس نے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول ! صور کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس سے مراد وہ سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔‘‘ [ أحمد :2؍162، ح : ۶۵۱۴۔ ترمذی، صفات المؤمنین، باب صفۃ القیامۃ....: ۲۴۳۰ ] اس لیے عام طور پر اس کا ترجمہ نرسنگا کیا جاتا ہے۔ دوسری حدیث میں ہے : ’’صور پھونکنے والا فرشتہ اس وقت سے تیار عرش کی طرف دیکھ رہا ہے جب سے اسے صور دیا گیا ہے اور وہ آنکھ بھی نہیں جھپک رہا کہ کہیں اسی اثنا میں اسے حکم نہ دے دیا جائے۔‘‘ [ مستدرک حاکم :4؍558، ح : ۸۶۷۶۔ الصحیحۃ :2؍65، ح : ۱۰۷۸ ] پس صحیح یہی ہے کہ صور ایک قرن ( نرسنگا) ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ’’الصُّوْرِ ‘‘ ’’ صُوْرَةٌ ‘‘ کی جمع ہے اور اس سے مراد مخلوق کی صورتیں ہیں تو یہ قول قرآن و سنت کی رو سے مردود ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ نمل (۸۷) پہلے ایک صور پھونکا جائے گا، ساری خلقت گھبرا جائے گی، پھر دوبارہ پھونکا جائے گا تو ساری خلقت فنا ہو جائے گی، پھر تیسری دفعہ پھونکا جائے گا تو ساری خلقت زندہ ہو کر ایک جگہ جمع ہو جائے گی۔ بعض نے لکھا ہے کہ نفخہ اصل میں دو بار ہو گا، پہلے کو نفخۂ فزع یا صعق کہا جاتا ہے، گویا پہلے گھبراہٹ پھر بے ہوشی اور نتیجتاً فنا، یعنی دونوں ایک ہی ہیں اور دوسرے کو نفخۂ قیام۔ واللہ اعلم! (ابن کثیر، قرطبی) 4۔ عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ: ’’الْغَيْبِ ‘‘ سے مراد بندوں کے اعتبار سے غیب (پوشیدہ) اور ’’الشَّهَادَةِ ‘‘ کا معنی حاضر ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ کے لیے تو کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں، سب حاضر ہی حاضر ہے۔ 5۔ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ: یعنی جو رب یہ صفات رکھتا ہے وہی اس لائق ہے کہ تم اس کی فرماں برداری اختیار کرو، اس کے بندے بن کر رہو اور سمجھو کہ تمھیں اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور اچھے یا برے ہر عمل کا بدلہ پانا ہے۔