قُلْ أَنَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
کہہ دے کیا ہم اللہ کے سوا اس کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے اور نہ ہمیں نقصان دے اور ہم اپنی ایڑیوں پر پھیر دیے جائیں، اس کے بعد کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی ہے، اس شخص کی طرح جسے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے، اسی کے کچھ ساتھی ہیں جو اسے سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔ کہہ دے اللہ کا بتایا ہوا راستہ ہی اصل راستہ ہے اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم جہانوں کے رب کے فرماں بردار بن جائیں۔
قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ....: آپ ان سے کہہ دیں کہ کیا ہم توحید کی سیدھی سڑک چھوڑ کر پھر شرک میں مبتلا ہو جائیں، اگر ہم ایسا کریں تو ہماری مثال اس شخص کی طرح ہو گی جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی صحرا سے گزر رہا ہو اور شیطانوں کے نرغے میں آ جائے، جو اسے سیدھے راستے سے بھٹکا کر کسی اور طرف لے جائیں اور وہ حیران و پریشان نہ سمجھ سکے کہ کیا کرے اور اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ ہماری طرف آجاؤ، سیدھی راہ ادھر ہے، لیکن وہ شیطانوں کے چکر میں ایسا پھنس گیا ہے کہ نہ وہ ساتھیوں کی پکار کا جواب دیتا ہے اور نہ ان کی طرف جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کفر و شرک اختیار کر کے جو گمراہ ہو گیا ہے، وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آسکتا۔ ہاں، اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہدایت مقدر کر دی ہے تو یقیناً اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہو جائے گا، کیونکہ سیدھے راستے پر چلانا اسی کا کام ہے، ہمارے لیے یہ حکم ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور نماز قائم کریں اور اللہ سے ڈرتے رہیں، اس یقین کے ساتھ کہ قیامت کے دن سب کو اسی کے سامنے جمع ہونا ہے۔