وَإِن كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَن تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُم بِآيَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ
اور اگر تجھ پر ان کا منہ پھیرنا بھاری گزرا ہے تو اگر تو کرسکے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ نکالے، پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے آئے (تو لے آ) اور اگر اللہ چاہتا تو یقیناً انھیں ہدایت پر جمع کردیتا۔ پس تو جاہلوں میں سے ہرگز نہ ہو۔
1۔ وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ....: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے جھٹلانے سے جو تکلیف اور دل شکنی ہوتی تھی اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ان لوگوں کی بے رخی اگر بہت زیادہ ہی آپ پر شاق گزر رہی ہے تو زمین میں سرنگ نکال کر یا آسمان پر سیڑھی کے ذریعے سے چڑھ کر آپ کوئی معجزہ لا کر ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر آمادہ کر سکتے ہیں، تو آپ ایسا بھی کر کے دیکھ لیجیے، لیکن یہ چونکہ آپ سے ہو نہیں سکتا تو رنجیدہ ہونے سے کیا فائدہ، بہتر ہے کہ انجام کار ہم پر چھوڑتے ہوئے پورے اطمینان اور پورے سکون کے ساتھ اپنی دعوت کے کام میں لگے رہیں۔ کفار کس طرح کے معجزات کا تقاضا کرتے تھے، اس کے لیے دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۹۰ تا ۹۷)۔ 2۔ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ ....: یعنی ایسا خیال مت کیجیے کہ کوئی نشانی ( معجزہ) لانے سے یہ راہِ ہدایت پر ضرور ہی آ جائیں گے، کیونکہ ہدایت سراسر اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، آپ کے ذمے صرف پیغام پہنچا دینا ہے۔ اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں اور ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر ہر گز کوئی غم یا افسوس نہ کریں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی کہ سب لوگ ایمان لے آئیں تو اسے یہ کام کچھ مشکل نہ تھا، اس نے صرف ’’ كُنْ‘‘ کہنا تھا کہ سب لوگ ایمان لے آتے اور ہدایت پر جمع ہو جاتے۔ دیکھیے یونس (۹۹) مگر ایسا کرنا اس کی مشیت اور حکمت کے خلاف ہے، جو بظاہر یہ ہے کہ اس سے اختیار دے کر آزمانے کا سلسلہ ختم ہو جاتا۔ بہر حال اپنے کاموں کی حقیقی حکمت و مصلحت وہی جانتا ہے، لہٰذا اس قسم کے نظریے کو اپنے دل میں جگہ نہ دیجیے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و تقدیر اور اس کی مصلحتوں پر ایمان رکھ کر تسلی حاصل کریں۔