الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ
سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔
1۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ: اس آیت میں اکیلے اللہ تعالیٰ کے تمام خوبیوں کا مالک اور معبود ہونے کی دلیل بیان کی گئی ہے اور کفار کے شرک پر تعجب کا اظہار کیا گیا ہے۔ 2۔ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ....: اللہ تعالیٰ نے یہاں دو قسم کی چیزوں کا ذکر فرمایا ہے، ایک زمین و آسمان کا جو جوہر ہیں، یعنی اپنا الگ وجود رکھتے ہیں اور دوسرے اندھیروں اور اجالے کا جو عرض ہیں، یعنی دوسری چیزوں کے ذریعے سے قائم ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی جوہر یا عرض ایسا نہیں جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا نہ کیا ہو۔ اندھیروں اور اجالے سے یہی رات اور دن مراد ہیں، یا پھر ایمان کا نور اور کفر کے اندھیرے۔ (قرطبی) ’’النُّوْرَ ‘‘ کو واحد اور ’’الظُّلُمٰتِ ‘‘ کو جمع بیان کرنے میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ ایمان کا نور ایک ہی ہے، جبکہ کفر کی گمراہیاں بے شمار ہیں۔ سیدھا راستہ ایک ہے اور غلط راستوں کا شمار ہی نہیں۔ 3۔ ثُمَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ: یعنی جب ہر چیز کا خالق و مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور یہ مشرکین اسے اپنا رب ( پالنے والا) بھی تسلیم کرتے ہیں تو ان پر لازم تھا کہ عبادت بھی اسی کی کرتے، مگر یہ پھر بھی دوسروں کو اس کے برابر گردانتے ہیں، ان کے سامنے سجدے کرتے ہیں، ان کے نام کی نذریں چڑھاتے اور منتیں مانتے ہیں اور مشکلات میں ان سے مدد طلب کرتے ہیں۔ کس قدر بے عقلی ہے کہ پیدا اللہ تعالیٰ کرے، روزی بھی وہی دے، پھر مانگا غیرسے جائے اور اسے اپنے رب کے برابر ٹھہرایا جائے۔ دیکھیے سورۂ لقمان (۱۰، ۱۱) اور سورۂ عنکبوت(۶۱ تا ۶۳)۔