سورة المآئدہ - آیت 113

قَالُوا نُرِيدُ أَن نَّأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَن قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

انھوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس میں سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہم جان لیں کہ واقعی تو نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہوں سے ہوجائیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْا نُرِيْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا: یعنی ہم یہ معجزہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر نہیں مانگ رہے، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے کہا تھا : ﴿لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً ﴾ [ البقرۃ : ۵۵ ] ’’ہم ہر گز تیرا یقین نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کو کھلم کھلا دیکھ لیں۔‘‘ بلکہ چند امور کے پیش نظر طلب کر رہے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم بھوکے ہیں یا برکت کے لیے کچھ کھانا چاہتے ہیں۔ وَ تَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا: یعنی ہمیں اس بات کا اطمینان ہو جائے ( جو ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے) اور ہم عین الیقین کے درجے کا علم حاصل کر لیں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں اور بنی اسرائیل کے سامنے آپ کے سچا رسول ہونے کی گواہی دے سکیں۔