يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ
جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر کہے گا تمھیں کیا جواب دیا گیا ؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بے شک تو ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔
1۔ يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ ....: دین کے کچھ مسائل اور احکام بیان کرنے کے بعد اب قیامت کے بعض احوال ذکر فرما دیے، تاکہ نافرمانی کرنے والوں کو تنبیہ ہو۔ (کبیر) مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن پیغمبروں کو جمع کرکے ان سے سوال ہو گا کہ جو دعوت تم نے دی تھی تمھاری امتوں نے اسے کس حد تک قبول کیا۔ پیغمبروں سے یہ سوال درحقیقت امتوں کو ڈانٹ ڈپٹ اور ملامت کے لیے ہو گا۔ (ابن کثیر) جیسا کہ آیت : ﴿وَ اِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُىِٕلَتْ﴾ ’’جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا‘‘ یہ سوال درحقیقت زندہ درگور کرنے والوں کو ذلیل کرنے کے لیے ہو گا۔ 2۔ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا.... : وہ کہیں گے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امتوں کے اپنے اپنے رسولوں کو جواب کا کچھ علم تو پیغمبروں کو تھا، کیونکہ ان کی عمر انھی میں گزری تھی، تو وہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں کچھ علم نہیں۔ اس سوال کا جواب ﴿اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ﴾ میں موجود ہے، یعنی ہم تو صرف ان کے ظاہری جواب کی حد تک واقف ہیں، جو ہماری زندگی میں انھوں نے دیا اور پیغمبر شہادت بھی اسی کے متعلق دیں گے۔ (دیکھیے نساء : ۴۱۔ بقرہ : ۱۴۳) باقی رہا کہ انھوں نے فی الحقیقت ہماری دعوت کو دل سے قبول کیا یا نہیں اور ہمارے بعد ہماری امتیں اس دعوت پر کہاں تک ثابت قدم رہیں تو اس کا علم تیرے سوا کسی کو نہیں، کیونکہ چھپی ہوئی باتوں کو تو ہی خوب جاننے والا ہے، سو آیات میں بحمد اللہ کوئی تعارض نہیں۔ (کبیر) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ان کو سنایا جو پیغمبروں کی شفاعت پرمغرور ہیں، تاکہ معلوم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی کسی کے دل پر گواہی نہیں دیتا اور کوئی کسی کی سفارش نہیں کرتا۔ (موضح)