وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِّنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
اور انھوں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ واقع نہ ہوگا تو وہ اندھے ہوگئے اور بہرے ہوگئے، پھر اللہ ان پر مہربان ہوگیا، پھر ان میں بہت سے اندھے ہوگئے اور بہرے ہوگئے اور اللہ خوب دیکھنے والا ہے جو وہ کرتے ہیں۔
1۔ وَ حَسِبُوْۤا اَلَّا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ: ’’فِتْنَةٌ ‘‘ کے اصل معنی آزمائش کے ہیں، مطلب یہ کہ انھوں نے سمجھا کہ ہم کیسے ہی گناہ کر لیں، خواہ انبیاء تک کو قتل کریں، چونکہ ہم اﷲ کے بیٹے اور چہیتے ہیں، اس لیے دنیا میں کسی قسم کی بد بختی و نحوست یا غلبۂ دشمن قسم کی کوئی بلا ہم پر نازل نہیں ہو گی۔ (کبیر) 2۔ فَعَمُوْا وَ صَمُّوْا: مگر حق سے اندھے اور بہرے ہونے کی وجہ سے ان پر بلا نازل ہوئی۔ پہلی مرتبہ اﷲ تعالیٰ نے بخت نصر کو ان پر مسلط کر دیا جس نے ان کی مسجد اقصیٰ کو جلا ڈالا، ان کے اموال لوٹے اور ان کی اکثریت کو لونڈی و غلام بنا کر بابل لے گیا۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۴ تا ۸)۔ 3۔ ثُمَّ تَابَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ: یعنی اﷲ تعالیٰ نے انھیں بخت نصر کی غلامی سے نجات دی اور انھوں نے اپنی حالت سدھاری اور کچھ عرصہ کے لیے ٹھیک رہے۔ 4۔ ثُمَّ عَمُوْا وَ صَمُّوْا كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ ....:یعنی پھر دوبارہ پہلے جیسی سرکشی پر اتر آئے، یہاں تک کہ انھوں نے زکریا اور یحییٰ علیہما السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کو قتل کر ڈالا اور عیسیٰ علیہ السلام سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا، بلکہ انھیں بھی قتل کرنے کے درپے ہوئے۔ بعض نے گمراہی کے پہلے دور کو زکریا اور یحییٰ علیہما السلام کے زمانے کے ساتھ خاص کیا ہے اور دوسرے دور کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ اور یہاں ’’كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ‘‘ میں اشارہ ہے کہ ان میں سے بعض حق پرست مسلمان ہو گئے تھے، جیسے عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء۔ اور ہو سکتا ہے کہ : ﴿لَتُفْسِدُنَّ فِي الْاَرْضِ مَرَّتَيْنِ﴾ [ بنی إسرائیل : ۴ ] (بے شک تم زمین میں ضرور دو بار فساد کرو گے) سے ان دونوں ادوار کی طرف اشارہ ہو۔ (کبیر) ﴿وَ اللّٰهُ بَصِيْرٌ بِمَا يَعْمَلُوْنَ﴾ اس سے مقصود انھیں اﷲ اور اس کے عذاب سے ڈرانا ہے۔