إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی بنے اور صابی اور نصاریٰ، جو بھی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور اس نے نیک عمل کیا تو ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....: اوپر کی آیات میں بتایا کہ اہل کتاب جب تک ایمان لا کر عمل صالح نہ کریں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے، اس میں فرمایا کہ صرف اہل کتاب ہی نہیں سب مسلم و غیر مسلم لوگوں کا یہی حکم ہے۔ 2۔ اس آیت میں لفظ ’’ الصّٰبِـُٔوْنَ ‘‘ بظاہر تو منصوب ہونا چاہیے تھا مگر سیبویہ اور خلیل نے لکھا ہے کہ یہ ’’ مَرْفُوْعٌ بِالْاِبْتِدَاءِ عَلٰی نِيَّةِ التَّأْخِيْرِ‘‘ ہے، یعنی یہ لفظ ’’ الصّٰبِـُٔوْنَ ‘‘ اصل میں ’’ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ ‘‘ کے بعد ہونے کی نیت سے مبتدا ہے اور اس کی خبر ’’كَذٰلِكَ ‘‘ ہے، یعنی ’’ الصّٰبِـُٔوْنَ ‘‘ کا بھی یہی حکم ہے۔ اس کے مؤخر لانے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دراصل یہ سب فرقوں سے زیادہ گمراہ فرقہ ہے۔ اس لیے ان کا علیحدہ بیان ہوا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ان فرقوں میں سے جو بھی ایمان لا کر عمل صالح کرے گا اﷲ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمائے گا، حتیٰ کہ اگر صابی بھی ایمان لے آئیں تو ان کو بھی یہ رعایت مل سکتی ہے۔ (کبیر) ’’الصّٰبِٕيْنَ ‘‘ کی تشریح کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۶۲) کے حواشی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے بعد آپ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، گویا اس آیت میں ’’ اٰمَنَ بِاللّٰهِ ‘‘ سے مراد مسلمان ہونا ہے، یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں ان میں جو بھی آسمانی دین تھا اس پر ایمان لا کر عمل کرنے والے مراد ہیں، مگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد کوئی شخص کتنا بھی اﷲ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے مطلع ہونے کے باوجود کلمہ نہیں پڑھتا تو وہ جہنمی ہے۔ ’’ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ سے مراد یا تو وہ لوگ ہیں جو صرف زبان سے ایمان لائے دل سے نہیں، یعنی منافق، ان میں سے جو دل سے ایمان لا کر عمل صالح کرے گا، یا سب مسلمان مراد ہیں کہ اگر وہ ایمان کے ساتھ عمل صالح کریں گے تو خوف اور حزن سے بچیں گے۔ صرف کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں، عمل صالح بھی ضروری ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۶۲)۔