وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم مَّا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
اور یہود نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان پر لعنت کی گئی، اس کی وجہ سے جو انھوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور یقیناً جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی وہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
1۔ وَ قَالَتِ الْيَهُوْدُ يَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ ....:اﷲ تعالیٰ نے جب اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ان الفاظ میں دی کہ کون اﷲ کو قرض حسنہ دیتا ہے، حالانکہ وہ مال اﷲ تعالیٰ ہی کا تھا، اسی نے دیا تھا اور اسی کے دیے ہوئے میں سے انھوں نے دینا تھا، تو یہودی بجائے اس کے کہ اﷲ تعالیٰ کے انداز بیان اور اس کے فضل و کرم پر غور کرتے اور سمجھتے کہ اﷲ ہمیں کئی گناہ بڑھا کر دینے کے لیے صدقے کی ترغیب دے رہا ہے اور اسے قرض کہہ رہا ہے، کہنے لگے کہ اﷲ تو فقیر ہے اور ہم غنی ہیں، تبھی وہ ہم سے قرض مانگتا ہے۔ یہ یہودیوں کی انتہائی خست اور کمینگی تھی، وہی کمینگی اس آیت میں دوسرے الفاظ میں ذکر کی گئی ہے کہ یہودیوں نے کہا کہ اﷲ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، یعنی وہ بخیل ہے، کچھ دیتا نہیں، بلکہ مانگتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہاتھ تو انھی کے بندھے ہوئے ہیں اور بخیلی انھی کی صفت ہے اور انھی گستاخیوں اور کمینگیوں کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہیں، وہ بے انتہا فضل و کرم کا مالک اور بے حد و حساب عطا فرمانے والا ہے، تمام خزانے اسی کے پاس ہیں، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے، تمام مخلوق کی ہر حاجت اور ضرورت جو پڑتی یا پڑ سکتی ہے، وہی پوری کرتا ہے، فرمایا : ﴿وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ﴾ [إبراہیم : ۳۴ ] ’’اور اس نے تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اﷲ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے، یقیناً انسان بڑا ظالم بہت نا شکرا ہے۔‘‘ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بے شک اﷲ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے، کسی طرح کا خرچ کرنا اسے کم نہیں کرتا۔ کیا تم نے دیکھا کہ اس نے جب سے آسمان و زمین پیدا کیے کس قدر خرچ کیا ہے؟ تو اس سے اس میں کچھ کمی نہیں ہوئی جو اس کے دائیں ہاتھ میں ہے۔‘‘ [ بخاری، التوحید، باب : وكان عرشه علي الماء : ۷۴۱۹ ] ایک حدیث میں فرمایا : ’’اﷲ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔‘‘ [ مسلم، الامارۃ، باب فضیلۃ الأمیرالعادل…....: ۱۸۲۷ ] 2۔ اس آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ موجود ہیں۔ بعض لوگ اس کا ترجمہ قبضہ، قدرت وغیرہ کرتے ہیں اور ہاتھوں کا انکار کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر ہم اس کے ہاتھ مانیں تو وہ ہمارے جیسا ہو جائے گا، حالانکہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ ان لوگوں کی بات درست نہیں، کیونکہ یہ تو اس وقت ہو گا جب ہم کہیں کہ اس کے ہاتھ ہمارے ہاتھوں جیسے ہیں، جب ہم کہتے ہیں کہ اﷲ کے ہاتھ ہیں مگر ہمارے جیسے نہیں، بلکہ ایسے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں تو اس سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی، جبکہ اس کے ہاتھوں کے انکار سے کئی احادیث اور قرآن کی آیات کا انکار لازم آتا ہے۔ اب ہم سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں، اﷲ تعالیٰ بھی دیکھتا سنتا ہے تو کیا وہ ہمارے جیسا ہو گا؟ نہیں، بلکہ اس کا سننا اور دیکھنا ہماری طرح نہیں، بلکہ ایسا ہے جیسا اس کی شان کے لائق ہے۔ اسی طرح اﷲ بھی موجود ہے ہم بھی موجود ہیں، تو کیا وہ بھی ہماری مثل ہو جائے گا؟ نتیجہ تو یہی نکلا کہ مشابہت ثابت ہونے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے وجود کا بھی انکار کرنا پڑے گا۔ [ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] نہیں، بلکہ وہ موجود ہے، سمیع و بصیر ہے، اس کا چہرہ، اس کی آنکھیں، اس کا سمع و بصر اور اس کا وجود سب کچھ قرآن سے ثابت ہے اور ماننا لازم ہے، مگر وہ وجود اور سمع و بصر اور ہاتھ ہمارے یا کسی مخلوق جیسے نہیں، بلکہ ایسے ہیں جیسے اس کے لائق ہیں۔ اﷲ کی ذات بھی بے مثل ہے، اس کی صفات بھی بے مثل ہیں۔ کئی ایسے بھی بے نصیب ہیں جو اسی شبہ کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے سننے، دیکھنے اور قیامت کے دن زمین پر آنے کا صاف انکار کر کے اپنے ڈھکوسلے سے بنایا ہوا کوئی معنی کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ہدایت عطا فرمائے۔ 3۔ وَ لَيَزِيْدَنَّ كَثِيْرًا ....:یعنی یہ لوگ اگر ہدایت کے طلب گار ہوتے تو آپ پر نازل ہونے والی ہر آیت و حدیث سے صحابہ کے ایمان کی طرح ان کے ایمان میں اضافہ اور ترقی ہوتی، مگر چونکہ ان کے دل بغض و عناد، ضد اور حسد سے بھرے ہوئے ہیں، اس لیے تیرے رب کی طرف سے جو کچھ بھی تجھ پر نازل ہو گا وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کی سر کشی اور کفر ہی میں اضافہ کرے گا، اسی کا نتیجہ تھا کہ جیسے جیسے قرآن اترتا ان کی سرکشی اور کفر بڑھتا جاتا۔ 4۔ وَ اَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ ....: یعنی ان پر اﷲ تعالیٰ کی لعنت کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے درمیان باہمی عداوت اور بغض اس حد تک پہنچ گیا کہ وہ قیامت تک آپس میں ایک نہیں ہو سکتے، بلکہ وہ بہت سے فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اسی لعنت کا اثر ہے کہ دنیا میں امن و سلامتی کی کوششوں کے بجائے وہ دنیا میں کہیں نہ کہیں لڑائی کی آگ بھڑکائے رکھتے ہیں، مگر وہ جب بھی یہ آگ بھڑکاتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ ان کی ساری تگ و دو دنیا میں فساد پھیلانے کی ہے، جبکہ اﷲ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں فرماتا۔ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے موجودہ حالات جاننے والا ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح ہر لڑائی کے پیچھے یہودیوں کا خفیہ ہاتھ ہوتا ہے، یہ تو اﷲ کا فضل ہے کہ وہ ان کے منصوبے پورے نہیں ہونے دیتا۔ افسوس! اب مسلمانوں کے اکثر علماء و عوام کا بھی تقریباً یہی حال ہے کہ انھوں نے اﷲ کے دین پر عمل چھوڑ رکھا ہے، بلکہ جب بھی موقع ملتا ہے اسلام کے کسی نہ کسی حکم سے انکار یا اس کی گستاخی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ یہودیانہ خصلت ہے جس کی وجہ سے مسلمان ملکوں کے مالک ہو کر بھی کفار کے محکوم ہیں اور ان برکات سے محروم ہیں جو کتاب و سنت پر عمل کرنے اور برائیوں کو روکنے کے لیے جہاد کرنے کی صورت میں انھیں حاصل ہوتیں۔