إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔
1۔ اِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ ....: اوپر کی آیات میں کفار سے دوستی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے، اب اس آیت میں ’’اِنَّمَا ‘‘ کلمۂ حصر کے ساتھ بتایا کہ تمھارے دوست صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ، اس کے رسول اور اہل ایمان ہیں، اس لیے یہود کو مددگار اور دوست نہ بناؤ، بلکہ صرف مومنین کو اپنا مددگار سمجھو۔ (ابن کثیر، کبیر) یہاں ’’وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ ‘‘ کے معنی ہیں ’’جھکنے والے، عاجزی کرنے والے۔‘‘ چنانچہ قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ہے : ﴿وَ الَّذِيْنَ يُؤْتُوْنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ ﴾ [ المؤمنون : ۶۰ ] ’’اور وہ کہ انھوں نے جو کچھ دیا اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرنے والے ہوتے ہیں۔‘‘ (کبیر، ثنائی) بعض لوگوں نے ’’وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ ‘‘ کو ’’يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ ‘‘ کے فاعل سے حال قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے ’’وہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں‘‘ اور بعض روایات سے ثابت کیا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رکوع کی حالت میں انگوٹھی صدقہ کی تھی، اس پر ان کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی، مگر یہ سب روایات بہت ضعیف اور کمزور ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ان روایات پر سخت تنقید کی ہے اور ان کو بے اصل قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ان روایات سے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرنا زکوٰۃ دینے کی افضل ترین صورت ہے، مگر آج تک کسی عالم نے یہ فتویٰ نہیں دیا۔ (ابن کثیر، المنار) پس صحیح یہ ہے کہ آیت عام مومنین کے حق میں نازل ہوئی ہے اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء اس آیت کے اولین مصداق ہیں۔ ابو جعفر محمد بن علی بن حسین سے پوچھا گیا کہ ’’وَلِيُّكُمُ ‘‘سے مراد علی رضی اللہ عنہ ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ علی رضی اللہ عنہ بھی ان مومنوں میں سے ایک ہیں، یعنی یہ آیت سب مومنوں کے حق میں ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ یہاں جو صفات مذکور ہیں کہ ’’وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں‘‘ ان سے کیا مقصد ہے؟ تو ہم کہتے ہیں کہ اس سے منافقین پر طنز مقصود ہے جو ان صفات سے خالی تھے۔ (رازی) 2۔ شیعہ حضرات ان دو آیات سے علی رضی اللہ عنہ کی امامت بلا فصل ثابت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسی وقت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ تھے۔ ان کے استدلال کا مدار تو اس بات پر ہے کہ یہ آیت خاص کر علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی ہے، مگر ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ آیت سب مومنوں کے حق میں نازل ہوئی ہے اور علی رضی اللہ عنہ بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس آیت میں تمام صیغے جمع کے ہیں تو پھر صرف علی رضی اللہ عنہ کیسے مراد ہو سکتے ہیں ؟ اور پھر جب آیت کے نزول کے ساتھ ہی علی رضی اللہ عنہ کی ولایت ثابت ہو گئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک اس کو ملتوی رکھنا بے معنی ہے، نیز ولی کے معنی دوست اور مدد گار کے بھی آتے ہیں اور والی اور متصرف ( حاکم) کے بھی۔ آیت کا سیاق و سباق ( اس کے الفاظ اور اس سے پہلے والی آیات کے الفاظ) پہلے معنی کی تائید کرتے ہیں تو سیاق کے قرینہ کے خلاف دوسرے معنی لینے کے لیے کون سی وجہ جواز ہو سکتی ہے ؟ امام رازی رحمہ اللہ نے آٹھ دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آیت میں ولی کے پہلے معنی مراد ہیں، دوسرے معنی دلائل کے خلاف ہیں۔ (کبیر)