أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ
پھر کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے، ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں۔
اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُوْنَ ....:کیا یہ اﷲ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق کیے ہوئے فیصلے کو چھوڑ کر کفر و جاہلیت کے زمانے کا فیصلہ پسند کرتے ہیں جس کی بنیاد ذاتی خواہشات پر ہوتی تھی اور جن میں کمزور کے مقابلے میں طاقت ور کی طرف داری کی جاتی تھی، اسی کا نام یہودیت ہے کہ وہ چھوٹے درجے کے آدمی کے مقابلے میں بڑے کی رعایت کرتے، کمزوروں پر حدود قائم کرتے اور مال دار طبقہ کی رعایت کرتے۔ (کبیر، قرطبی) افسوس بعض مسلم حکام کے زمانے کے علماء نے ایسے احکام اور حیلے ایجاد کیے کہ اﷲ تعالیٰ کی حدود کا نفاذ تقریباً ناممکن ہو گیا، مثلاًانھوں نے شراب کی ایک دو قسمیں چھوڑ کر باقی نشہ آور چیزیں حلال کر دیں۔ اجرت پر لائی ہوئی عورت کے ساتھ زنا پر حد ختم کر دی۔ قصاص کو جیسا کہ اوپر گزرا تقریباً باطل کر دیا۔ سود کی کئی صورتوں کو حلال کر دیا۔ چور کو عدالت میں پیش ہونے کے بعد بھی صاحب مال کو معاف کرنے کا اختیار دے دیا۔ شواہد کے ساتھ چور کا جرم ثابت ہونے کے بعد چور کے صرف اس دعوے سے کہ یہ میرا مال تھا، اس کی حد معاف کر دی، خواہ وہ اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ اس امام (حاکم) کو جس سے اوپر کوئی امام نہ ہو ایک دو چیزوں کے سوا تمام حدود معاف کر دیں اور جاہلیت کے ان احکام کو شرع اسلام قرار دے کر مسلمان ملکوں میں نافذ کر دیا، تو کیا اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان : ’’ پھر کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں‘‘ جس طرح یہود و نصاریٰ میں شریعت بدلنے والوں کے لیے تھا، اسی طرح ایسے مسلمانوں کے لیے نہیں ہو گا جو قرآن و حدیث کے صریح احکام کے مقابلے میں اپنے من گھڑت احکام نافذ کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس کا نتیجہ بھی دنیا پر غلبے سے محرومی اور کفار کی بدترین غلامی کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ اب بھی مسلمانوں کے اکثر حکام نے طرز حکومت اور ملکی قانون کفار کے طریقے کے مطابق بنایا ہوا ہے اور وہ ایسی علماء کونسلیں بناتے رہتے ہیں جو قدیم جاہلیت کے ساتھ ساتھ نئی سے نئی جاہلیت کے نفاذ کے لیے قانون بنائیں اور اس کا نام اسلامی کونسل رکھتے ہیں۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]