سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت کھانے والے حرام کو، پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کر، یا ان سے منہ پھیر لے اور اگر تو ان سے منہ پھیر لے تو ہرگز تجھے کچھ نقصان نہ پہنچائیں گے اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
1۔ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ: اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں، جاسوسی کرنے کے لیے زیادہ باتیں سننا یا دوسروں کی باتیں ماننے اور قبول کرنے کے لیے سننا۔ یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں، جیساکہ آیت (۴۱) کے حاشیہ (۲) میں دونوں قسم کے گروہوں کا بیان ہوا ہے۔ 2۔ لِلسُّحْتِ: اس کے لفظی معنی مٹانے اور ہلاک کرنے کے ہیں، گویا حرام مال وہ چیز ہے جو انسان کی نیکیوں کو اکارت کر دیتا ہے اور ہر اس خسیس مال پر ”سُحْتٌ“ کا لفظ بولا جاتا ہے جس کے لینے میں عار ہو اور خفیہ طور پر لیا جائے، اس میں رشوت بھی شامل ہے اور احادیث میں زانیہ کی اجرت، کتے، شراب اور مردار کی قیمت کو”سُحْتٌ“ کہا گیا ہے۔ سود، چوری کا مال اور جوئے سے کمایا ہوا مال بھی ”سُحْتٌ“ میں داخل ہے۔ (کبیر، قرطبی) 3۔ جس زمانے میں یہ آیت نازل ہوئی یہودیوں کی حیثیت محض ایک معاہد قوم کی تھی جس کے ساتھ صلح سے رہنے کا معاہدہ تھا اور وہ ذمی، یعنی اسلامی حکومت کی رعایا نہ تھے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت کو اختیار دیا گیا کہ چاہیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کریں اور چاہیں تو انکار کر دیں اور یہی اختیار اسلامی حکومت کو کسی غیر مسلم معاہد قوم کے افراد کے درمیان فیصلہ کرنے کا ہے۔ رہے ذمی لوگ سو اگر وہ اپنے مقدمات اسلامی عدالت میں لائیں تو ان کے مقدمات کا فیصلہ کرنا ضروری ہو گا۔ (المنار) یہی تفصیل امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے، پس اس اختیار کا تعلق معاہد قوم سے ہے۔ (کبیر) مگر دوسرے علماء کا خیال ہے کہ یہ اختیار منسوخ ہے، اب اگر وہ فیصلہ لائیں تو فیصلہ کرنا ہو گا۔ ان علماء میں عمر بن عبد العزیز اور امام نخعی رحمھما اللہ شامل ہیں۔ نحاس نے بھی ناسخ و منسوخ میں یہی لکھا ہے کہ آیت : ﴿فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ [ المائدۃ : ۴۸ ] سے یہ آیت منسوخ ہے، جس کے معنی ہیں کہ آپ اﷲ کے نازل کردہ کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا زیادہ صحیح قول بھی یہی ہے۔ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ شروع سے یہ طریقہ چلا آیا ہے کہ باہمی حقوق اور وراثت میں اہل کتاب کا فیصلہ ان کے دین کے مطابق کیا جائے، ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اسلامی قانون کے مطابق فیصلے کے خواہش مند ہوں تو پھر اسی کے مطابق کر دیا جائے۔‘‘ اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ گو بعض جزئیات میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم ان کی اکثریت نسخ ہی کی قائل ہے۔ (قرطبی)