يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَن يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اے رسول! تجھے وہ لوگ غمگین نہ کریں جو کفر میں دوڑ کر جاتے ہیں، ان لوگوں میں سے جنھوں نے اپنے مونہوں سے کہا ہم ایمان لائے، حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور ان لوگوں میں سے جو یہودی بنے۔ بہت سننے والے ہیں جھوٹ کو، بہت سننے والے ہیں دوسرے لوگوں کے لیے جو تیرے پاس نہیں آئے، وہ کلام کو اس کی جگہوں کے بعد پھیر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں اگر تمھیں یہ دیا جائے تو لے لو اور اگر تمھیں یہ نہ دیا جائے تو بچ جاؤ۔ اور وہ شخص کہ اللہ اسے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلے اس کے لیے تو اللہ سے ہرگز کسی چیز کا مالک نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے نہیں چاہا کہ ان کے دلوں کو پاک کرے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔
1۔ يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ …....: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے تو صرف مشرکین سے واسطہ تھا، مدینہ میں آئے تو منافقین اور یہود کی سازشیں بھی ساتھ مل گئیں، اس پر تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کی وجہ سے غمگین نہ ہوں جو کفر میں دوڑ کر جاتے ہیں، یعنی جب بھی انھیں کوئی موقع ہاتھ آتا ہے فوراً کفر کی طرف پلٹ جاتے ہیں، کافروں سے مل جاتے ہیں۔ اس کا تعلق منافقین سے ہے۔ (رازی) 2۔ وَ مِنَ الَّذِيْنَ هَادُوْا ....:یعنی کفر میں دوڑ کر جانے والے یہودی بھی آپ کو غمگین نہ کریں۔ ”سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ“ جو جھوٹی باتیں بہت سنتے ہیں۔ یعنی جو کچھ ان کو ان کے مذہبی پیشوا تورات میں تحریف کر کے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر طعن کے طور پر کہتے ہیں اسے خوب سنتے اور قبول کرتے ہیں، ”سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِيْنَ“ یعنی پھر یہ ان لوگوں کے جاسوس بن کر مسلمانوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجالس میں جا کر خوب سنتے ہیں، جو تکبر کی وجہ سے ان مجلسوں میں شریک ہونا پسند نہیں کرتے۔ (کبیر) 3۔ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ مِنْۢ بَعْدِ مَوَاضِعِهٖ: کتب تفاسیر و احادیث میں لکھا ہے کہ یہود میں سے ایک مرد اور ایک عورت نے زنا کا ارتکاب کیا، ان کے علماء نے باہم مشورہ کر کے طے کیا کہ اس مقدمے کا فیصلہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کروا لیتے ہیں، کیونکہ وہ نرم شریعت لے کر آئے ہیں، اگر انھوں نے کوڑے مارنے کا حکم دیا تو ہماری مراد بر آئے گی اور اگر انھوں نے سنگ سار کرنے کا حکم دیا تو ہم ان کا فیصلہ ٹھکرا دیں گے۔ چنانچہ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ [مسلم، الحدود، باب رجم الیہود أہل الذمۃ فی الزنٰی : ۱۶۹۹ ] مفصل واقعہ کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (۱۵) کا حاشیہ (۱)۔