وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
1۔ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَيْدِيَهُمَا …....: اوپر کی آیت میں محاربین ( جو لوٹ مار کرتے اور فساد پھیلاتے ہیں) کی سزا بیان ہوئی تھی، اب اس آیت میں چوری کی حد (قانونی سزا) بیان فرمائی کہ مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں۔ حدیث میں اس کی تفصیل ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے مگر دینار کے ایک چوتھائی یا زیادہ میں۔‘‘ [ مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ و نصابھا : ۲؍۱۶۸۴ ] 2۔ چور کو حاکم کے پاس لے جانے سے پہلے معاف کیا جا سکتا ہے، بعد میں نہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور کو لایا گیا جس نے ایک چادر چرائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ چادر کے مالک صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے اﷲ کے رسول ! میرا ارادہ یہ نہیں تھا (کہ اس کا ہاتھ کٹوا دوں) میری چادر اس پر صدقہ ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ تو نے اسے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں (یہ صدقہ) نہ کیا؟‘‘ [ ابن ماجہ، الحدود، باب من سرق من الحرز : ۲۵۹۵ قال الألبانی صحیح ] بعض لوگوں نے چوری کی حد باطل کرنے کے لیے بہت سے حیلے ایجاد کیے ہیں، ان میں سے دو حیلے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں کسی چور کا ہاتھ کاٹا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک یہ کہ عدالت میں جانے کے بعد مال مسروقہ کا مالک چور کو چرائی ہوئی چیز ہبہ کردے، یا اس کے ہاتھ بیچ دے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا حالانکہ یہ صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ چور پر شہادتوں کے ساتھ چوری کا جرم ثابت ہو جائے تو چور دعویٰ کر دے کہ مال مسروقہ میرا مال ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ وہ اپنی ملکیت کی کوئی دلیل پیش نہ کرے۔ یہ حیلہ لکھنے والے نے اس پر لکھا ہے کہ مخالف کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح تو کوئی چور بھی جھوٹا دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں، ہر چور ہی مالک ہونے کا دعویٰ کر دے گا اور چوری کی حد سرے سے ختم ہو جائے گی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ یہ بات صرف علماء کو معلوم ہے، چوروں کو معلوم نہیں، اس لیے حد ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حیلوں کی وجہ سے بھی مسلم حکومتوں میں حدود اﷲ ختم ہوئیں جس کے نتیجے میں ظلم و ستم حد سے بڑھے، پھر اغیار مسلمانوں پر مسلط ہو گئے، اس کا علاج دوبارہ حدود اﷲ کا صحیح نفاذ ہے۔ 3۔ جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ: یہ اس کے گناہ کی سزا بھی ہے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے عبرت بھی کہ وہ تمام عمر لوگوں کے لیے چوری سے رکنے کا باعث اور یاددہانی بنا رہے گا کہ چور کے متعلق اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔ اگر اسے قتل بھی کر دیا جاتا تو یہ عبرت حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔