إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انھیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انھیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انھیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔
1۔ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ ....: یہ آیت محاربہ کہلاتی ہے، مراد وہ لوگ ہیں جو اس حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول کے احکام نافذ کرنے والی ہے اور اسلام کی سرزمین میں ڈاکا ڈالتے، لوٹ مار کرتے، فساد پھیلانے کی کوشش کرتے اور قتل و غارت کا بازار گرم کرتے ہیں۔ حاکم وقت ان چار سزاؤں میں سے کوئی بھی سزا انھیں دے سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف اسی کو قتل کیا جائے گا جس نے قتل کیا ہو اور اتنی ہی سزا دی جائے گی جتنا اس کا جرم ہو گا، مگر آیت کے صریح الفاظ اس کی موافقت نہیں کرتے، بلکہ ان لوگوں کا حکم حربیوں ( جنگ کرنے والوں) کا ہے، حاکم وقت ان سزاؤں میں سے جو چاہے سزا دے سکتا ہے، عام اس سے کہ مشرک ہوں یا یہودی یا باغی مسلمان ہوں۔ 2۔ اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا: باب تفعیل کی وجہ سے معنی میں زیادتی کے اظہار کے لیے ترجمہ میں ’’بری طرح‘‘ کا اضافہ کیا گیا ہے، اسی طرح ”اَوْ يُصَلَّبُوْۤا“ اور ”اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ“ میں بھی باب کا خیال رکھا گیا ہے۔ 3۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت عکل اور عرینہ کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کا قصہ انس رضی اللہ عنہ نے یوں بیان کیا ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، لیکن وہاں کی آب و ہوا انھیں موافق نہ آئی اور وہ بیمار ہو گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مدینہ سے باہر صدقہ کے اونٹوں میں رہنے کا حکم دیا کہ ان کا دودھ اور پیشاب (ملا کر) پییں۔ یہ لوگ وہاں چلے گئے، تندرست ہونے کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے اور چرواہے (یسارنوبی) کو قتل کر کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تعاقب میں سوار بھیجے جو انھیں پکڑ کر مدینہ منورہ لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے جائیں اور ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائیاں پھیری جائیں، پھر انھیں دھوپ میں پھینک دیا گیا، یہاں تک کہ سب مر گئے۔ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب إذا حرق المشرک المسلم ھل یحرق: ۳۰۱۸۔ مسلم : ۱۶۷۱ ]مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے گرم سلائیاں پھیرنے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ انھوں نے چرواہے کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا۔ [ مسلم، القسامۃ والمحاربین، باب حکم المحاربین و المرتدین :14؍1671]