وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔
1۔ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ : اس آیت کا تعلق «وَ لَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ﴾ [ المائدۃ: ۱۲ ] کے ساتھ ہے، یعنی ان سے عہد لیا اور موسیٰ علیہ السلام نے ان انعامات الٰہی کو یاد دلا کر ارض مقدس واپس لینے کے لیے جہاد کا حکم دیا۔ اس وقت وہاں عمالقہ (جبارین) کی حکومت تھی، لیکن بنی اسرائیل نے عہد شکنی کی اور عمالقہ کے ساتھ جنگ کرنے سے انکار کر دیا۔ (کبیر) 2۔ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ....: اس میں اﷲ تعالیٰ نے اپنی تین نعمتوں کا ذکر خصوصیت سے کیا ہے، ایک یہ کہ ان میں جلیل القدر انبیاء مبعوث فرمائے، جیسے اسحاق، یعقوب، یوسف اور موسیٰ علیہم السلام ۔ دوسری یہ کہ ان سب (بنی اسرائیل) کو بادشاہ بنا دیا، یعنی ان کو فرعون سے آزادی دی اور اپنی حکومت عطا فرمائی۔ معلوم ہوا کہ آزاد اور حاکم قوم کا ہر فرد ہی بادشاہ اور محکوم قوم کا ہر فرد غلام ہوتا ہے۔ تیسری یہ کہ انھیں توحید کا علم بردار بنایا، جبکہ دوسری تمام قومیں شرک میں مبتلا تھیں۔ اس تیسری نعمت میں وہ معجزات بھی شامل ہیں جو بنی اسرائیل کی مدد کے لیے وجود میں آئے، مثلاً سمندر کا پھٹنا، بادل کا سایہ ، پتھر سے چشمے کا پھوٹنا، من و سلویٰ وغیرہ۔