سورة المآئدہ - آیت 13

فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِّنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو ان کے اپنے عہد کو توڑنے کی وجہ ہی سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کردیا کہ وہ کلام کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور وہ اس میں سے ایک حصہ بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی اور تو ہمیشہ ان کی کسی نہ کسی خیانت کی خبر پاتا رہے گا، سوائے ان کے تھوڑے سے لوگوں کے، سو انھیں معاف کردے اور ان سے درگزر کر۔ بے شک اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ....: یعنی انھوں نے اپنے عہد و میثاق کی پاس داری کے بجائے سمع و طاعت کا وہ عہد توڑ دیا، نماز کو ضائع کرنا شروع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔( دیکھیے مریم : ۵۹ ) زکوٰۃ اور قرض حسنہ ( صدقہ وغیرہ) کے بجائے بخل اور کمینگی کی انتہا کو پہنچ گئے اور سود لینا شروع کر دیا، رسولوں اور ان کی کتابوں پر ایمان لانے اور جہاد کے ساتھ انھیں قوت دینے کے بجائے کتابوں میں تحریف کی اور جہاد میں جانے ہی سے صاف انکار کر دیا، تورات کے بہت سے حصے پر عمل ترک کر دیا، جس کے نتیجے میں اﷲ نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں میں نفاق بھر گیا۔ ’’قَسِيَّةٌ ‘‘ یا ’’قَاسِيَةٌ‘‘ اصل میں اس سکے کو کہتے ہیں جس میں ملاوٹ ہو، یہ ’’قَسْوَةٌ ‘‘ سے ہے جس کا معنی شدت اور سختی ہے۔ خالص سونا اور چاندی نرم ہوتے ہیں اور ان میں جتنی ملاوٹ زیادہ ہو اتنا ہی وہ زیادہ سخت ہو جاتے ہیں، اس تشبیہ کی رعایت سے انھیں ’’قَاسِيَةٌ ‘‘ فرمایا۔ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ: یعنی ایک لفظ کی جگہ دوسرا لفظ رکھ دیتے، یا اس کے اصل مفہوم کے بجائے کوئی غلط مفہوم نکال لیتے جسے تاویل باطل کہتے ہیں، اپنی اسی خست کی وجہ سے ہیرا پھیری کر کے انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات کو بدل ڈالا جو تورات میں مذکور تھیں۔ (قرطبی) وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُكِّرُوْا بِهٖ: یعنی انھوں نے تورات کے بہت سے حصے پر عمل ترک کر دیا، جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا، زانی کو سنگسار کرنا، سود کو حرام سمجھنا وغیرہ۔ افسوس اہل کتاب کی طرح مسلمانوں کی اکثریت نے بھی سمع و طاعت کو چھوڑا، نمازیں ضائع کیں، سود کھانے لگے، جہاد چھوڑ بیٹھے، باہمی فرقوں میں بٹ کر اﷲ کی کتاب میں تحریف کی حد تک تاویلیں کرنے لگے، تو نتیجہ بھی وہی ہے جو پہلوں کا تھا، مگر امید افزا بات یہ ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق امت مسلمہ میں ایسے لوگ قیامت تک رہیں گے جو حق پر قائم رہیں گے اور حق کی خاطر لڑتے رہیں گے، انھی کو ’’عَلَي الْحَقِّ مَنْصُوْرِيْنَ‘‘ کہا گیا ہے۔ [ مسلم، الإمارۃ، باب قولہ لا تزال طائفۃ....: ۱۰۳۷، بعد ح : ۱۹۲۳۔ ابن ماجہ : ۱۰ ] 4۔ ’’ خَآىِٕنَةٍ ‘‘ مصدر ہے بر وزن ’’عَافِيَةٌ ‘‘ بمعنی خیانت یعنی ان سے آئے دن کسی نہ کسی خیانت اور بد عہدی کا ظہور ہوتا رہے گا، یا اسم فاعل ہے کہ خیانت کرنے والی جماعت یا شخصیت یعنی ان میں ہمیشہ ایسے لوگ موجود رہیں گے جو خیانت اور بدعہدی کا ارتکاب کرتے رہیں گے اور آپ کو ہر گز ان کی طرف سے امن نصیب نہیں ہو گا۔ ﴿ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ﴾ یعنی ان میں سے چند لوگ ایسے ہیں جو کسی خیانت و بد عہدی کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ ان سے خاص کر عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مراد ہیں، یا وہ لوگ جنھوں نے کفر کے باوجود کسی قسم کی خیانت اور بد عہدی نہیں کی۔ (کبیر) فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اصْفَحْ : یعنی ان کی انفرادی خیانتوں اور بد عہدیوں سے درگزر کیجیے نہ کہ ان بد عہدیوں سے جو اجتماعی (یا اجتماعی کے حکم میں) ہوں، کیونکہ اس صورت میں تو وہ واضح حربی ( جو حالت جنگ میں ہوں) قرار پائیں گے، جن کی سر کوبی بہرحال کی جائے گی۔ (المنار) یا یہ کہ جو ان میں سے خیانت کا ارتکاب نہیں کرتے اور اپنے عہد پر قائم ہیں، ان کی دوسری لغزشوں سے در گزر فرمائیں۔ (رازی) ان دونوں صورتوں میں یہ آیت محکم رہے گی، ورنہ اسے قتال ( لڑائی) کے حکم والی آیت سے منسوخ سمجھا جائے گا۔ دیکھیے سورۂ توبہ (۲۹)۔