سورة المآئدہ - آیت 4

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمھارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں اور شکاری جانوروں میں سے جو تم نے سدھائے ہیں، (جنھیں تم) شکاری بنانے والے ہو، انھیں اس میں سے سکھاتے ہو جو اللہ نے تمھیں سکھایا ہے تو اس میں سے کھاؤ جو وہ تمھاری خاطر روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ذکر کرو اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَسْـَٔلُوْنَكَ مَا ذَاۤ اُحِلَّ لَهُمْ ....:چوپاؤں کا حکم تو فرما دیا، پھر لوگوں نے اور چیزوں کے متعلق پوچھا تو اﷲ تعالیٰ نے دین کا ایک عظیم الشان اصول بیان فرما دیا، جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے : ’’ ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔‘‘ یعنی کھانے پینے کی تمام طیبات یعنی ستھری چیزیں حلال ہیں، سو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو چیزیں حرام فرمائیں معلوم ہوا وہ ستھری نہیں، جیسے کچلی والے درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے پرندے، یا جن کا نام لے کر حرام قرار دے دیا، باقی سب حلال ہیں۔ اس قاعدے سے حرام اشیاء کا دائرہ تنگ ہو گیا اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع ہو گیا۔ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ ....: شکاری جانور سے ہر وہ درندہ اور پرندہ مراد ہے جسے شکار کے لیے رکھا اور سدھایا جاتا ہے، مثلاً کتا، چیتا، باز اور شکرا وغیرہ اور اس کے ’’سدھائے ہوئے ‘‘ ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ شکار پر چھوڑا جائے تو اسے اپنے مالک کے لیے پکڑ کر رکھے، اگر وہ خود شکار پکڑ کر کھانے لگے تو وہ شکار کھانا درست نہیں اور یہی معنی ”مِمَّاۤ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ“ کے ہیں۔ عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جب تم اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑو اور اﷲ کا نام لو تو جو شکار وہ تمھارے لیے پکڑے اسے کھا لو۔‘‘ میں نے کہا : ’’خواہ وہ اسے قتل کر دے؟‘‘ فرمایا : ’’خواہ وہ اسے قتل کر دے، بشرطیکہ قتل میں کوئی ایسا کتا شریک نہ ہو جو ان میں سے نہ ہو، کیونکہ تم نے اپنے کتے کو چھوڑتے وقت اﷲ کا نام لیا ہے، کسی دوسرے پر نہیں لیا۔‘‘ [ بخاری، الذبائح والصید، باب صید المعراض : ۵۴۷۶۔ مسلم: 1؍1929] عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جب تم اپنا کتا چھوڑو اور وہ تمھارے لیے پکڑ کر رکھے اور اسے زندہ پا لو تو اسے ذبح کر لو اور اگر تم اسے پاؤ کہ اس نے قتل کر دیا ہے لیکن اسے خود نہیں کھایا تو پھر تم اسے کھا لو، کیونکہ کتے کا اسے پکڑنا ہی ذبح کرنا ہے۔‘‘ [ بخاری، الذبائح والصید، باب التسمیۃ علی الصید : ۵۴۷۵۔ مسلم:6؍ 1929 ] وَ اتَّقُوا اللّٰهَ : یعنی اگر حلال ہونے کی کوئی شرط کم ہے تو شکار کھانے کے شوق میں اﷲ سے بے خوف ہو کر اسے مت کھاؤ۔