يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا
اے اہل کتاب! اپنے دین میں حد سے نہ گزرو اور اللہ پر مت کہو مگر حق۔ نہیں ہے مسیح عیسیٰ ابن مریم مگر اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ، جو اس نے مریم کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح ہے۔ پس اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مت کہو کہ تین ہیں، باز آجاؤ، تمھارے لیے بہتر ہوگا۔ اللہ تو صرف ایک ہی معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بطور وکیل کافی ہے۔
1۔ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ ....:رازی لکھتے ہیں، یہود کے شبہات کا جواب دینے کے بعد اب اس آیت میں نصاریٰ کے شبہ کی تردید کی جا رہی ہے۔ (کذا فی فتح الرحمن) مگر بعض علماء نے لکھا ہے کہ یہ خطاب یہود و نصاریٰ دونوں سے ہے، اس لیے کہ ’’ غلو‘‘ راہ اعتدال کے چھوڑ دینے کا نام ہے اور یہ افراط و تفریط (زیادتی اور کمی) دونوں صورتوں میں ہے۔ ایک طرف نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں افراط سے کام لے کر ان کو اﷲ کا بیٹا قرار دے رکھا تھا، تو دوسری طرف یہود نے مسیح علیہ السلام سے متعلق یہاں تک تفریط برتی کہ ان کی رسالت کا بھی انکار کر دیا، قرآن نے بتایا کہ یہ دونوں فریق غلو کر رہے ہیں۔ اعتدال کی راہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نہ تو اﷲ کے بیٹے ہیں کہ ان کو معبود بنا لیا جائے اور نہ جھوٹے نبی ہیں، بلکہ وہ اﷲ کے بندے اور رسول ہیں۔ (قرطبی) آج کل اسی قسم کا غلو مسلمانوں میں بھی آ گیا ہے اور ایسے لوگ موجود ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیائے امت کا درجہ اس قدر بڑھا دیتے ہیں کہ انھیں خدا کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہیں اور پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سمجھنا انتہائی درجے کی گستاخی شمار کرتے ہیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلو سے سختی سے منع فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ تُطْرُوْنِيْ كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰي ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللّٰهِ وَرَسُوْلُهُ )) [بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اﷲ تعالٰی: ﴿واذكر في الكتاب مريم ……﴾ : ۳۴۴۵ ] ’’مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کو بڑھایا۔ میں تو اس کا بندہ ہوں، لہٰذا تم مجھے صرف اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔‘‘ 2۔ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْيَمَ: یعنی انھیں کلمۂ ”كُنْ“ سے بنایا اور اس طرح ان کی پیدائش بن باپ کے ہوئی، یہ معنی نہیں کہ وہ کلمہ ہی عیسیٰ علیہ السلام بن گیا، ورنہ آدم علیہ السلام تو ماں باپ دونوں کے بغیر کلمۂ ”كُنْ“ سے پیدا ہوئے تھے۔ پھر انھیں بھی رب ماننا پڑے گا، دیکھیے سورۂ آل عمران(۵۹)۔ 3۔ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ: یعنی اس کی پیدا کردہ روح، اس اضافت سے عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کا اظہار مقصود ہے، ورنہ تمام روحیں اﷲ تعالیٰ ہی کی پیدا کردہ ہیں، فرمایا : ﴿ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ ﴾ [ فاطر : ۳ ] ’’کیا اﷲ کے سوا بھی کوئی پیدا کرنے والا ہے؟‘‘ جیسے فرمایا : ”ھٰذِہٖ نَاقَةُ اللّٰهِ“ ’’یہ اﷲ کی اونٹنی ہے‘‘ اور ”طَھِّرْ بَيْتِيَ“ ’’ میرے گھر کو پاک کر‘‘ حالانکہ تمام اونٹنیوں اور تمام گھروں کا مالک اﷲ ہے۔ یہ ’’ مِنْ ‘‘ تبعیضیہ نہیں ہے بلکہ ابتدائے غایت کے لیے ہے۔ (ابن کثیر) 4۔ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ: یعنی عیسیٰ علیہ السلام بھی اﷲ کے رسول ہیں، پس تم دوسرے پیغمبروں کی طرح ان کو اﷲ کا رسول ہی مانو اور انھیں الوہیت (خدائی) کا مقام مت دو۔ (کبیر) 5۔ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌ: ”ثَلٰثَةٌ“ مبتدا محذوف کی خبر ہے، یعنی ’’ اٰلِهَتُنَا ثَلاَثَةٌ ‘‘ یا ’’اَلْاَقَانِيْمُ ثَلاَثَةٌ ‘‘ کہ ہمارے معبود تین ہیں، یا اقانیم تین ہیں۔ مبتدا اس لیے حذف کیا ہے کہ نصرانیوں کے اقوال بہت ہی مختلف ہیں، اگرچہ خلاصہ ان کا ایک ہے کہ خدا تین ہیں مگر وہ تین نہیں ایک ہیں۔ اب ایک ذات اور اس کی بے شمار صفات تو ہو سکتی ہیں، مگر اﷲ تعالیٰ، مریم اور عیسیٰ علیہما السلام یہ تو تین مستقل شخصیتیں اور ذاتیں ہیں، یہ ایک ذات کیسے ہو گئے ! نصرانی بیک وقت خدا کو ایک بھی تسلیم کرتے ہیں اور پھر اقانیم ثلاثہ کے بھی قائل ہیں۔ یہ اقانیم ثلاثہ کا چکر بھی نہایت پر پیچ اور ناقابل فہم ہے۔ (کبیر) جس طرح بعض مسلمانوں میں [ نُوْرٌ مِّنْ نُوْرِ اللّٰهِ] کا عقیدہ نہایت گمراہ کن ہے، جو واضح طور پر سورۂ اخلاص اور پورے قرآن کے خلاف ہے۔ نصرانی کبھی تو ان تین سے مراد وجود، علم اور حیات بتاتے ہیں اور کبھی انھیں باپ، بیٹا اور روح القدس سے تعبیر کر لیتے ہیں، حالانکہ وجود، علم اور حیات تو ایک ذات کی صفات ہوتی ہیں مگر باپ، بیٹا اور روح القدس تو تین شخصیتیں ہیں، یہ ایک کیسے بن گئے ؟ پھر ان کی کور فہمی دیکھو کہ کبھی کہتے ہیں کہ باپ سے وجود، روح سے حیات اور بیٹے سے مراد مسیح علیہ السلام ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اقانیم ثلاثہ سے مراد اﷲ تعالیٰ، مریم اور عیسیٰ علیہما السلام ہیں۔ قرآن نے بھی اس آخری قول کا ذکر کیا ہے۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۷۳، ۷۵، ۷۶، ۱۱۶) الغرض نصرانیوں کے عقیدۂ تثلیث سے زیادہ بعید از عقل کوئی عقیدہ نہیں اور اس بارے میں ان میں اس قدر انتشار و افتراق ہے کہ دنیا کے کسی عقیدہ میں نہیں، اس لیے قرآن نے انھیں دعوت دی کہ تم تین خداؤں کے گورکھ دھندے کو چھوڑ کر خالص توحید کا عقیدہ اختیار کر لو۔ 6۔ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ : یعنی نہ کوئی اس کا شریک ہے، نہ بیوی اور نہ کوئی رشتے دار، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ کسی نے اس کو جنا۔ 7۔ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ: اور جسے تم نے اس کا شریک ٹھہرایا ہے وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح اس کا مملوک اور مخلوق ہے اور جو شخص مملوک یا مخلوق ہو وہ خالق یا مالک کا بیٹا یا شریک کیسے ہو سکتا ہے ؟ 8۔ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا : یعنی اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے، وکیل یعنی سارے کام بنانے والا تو وہ خود ہی ہے۔ (موضح)