سورة النسآء - آیت 142

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک منافق لوگ اللہ سے دھوکا بازی کر رہے ہیں، حالانکہ وہ انھیں دھوکا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاوا کرتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر بہت کم۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ: اس جملے کی تشریح سورۂ بقرہ کی آیت (۹) اور (۱۵) میں ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا انھیں دھوکا دینا بھی اسی طرح ہو گا جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ....: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقین کو اپنے اسلام کا ثبوت پیش کرنے کے لیے مسجد میں آنا پڑتا تھا۔ اگر کوئی مسجد میں نماز نہ پڑھتا تو مسلمان شمار نہیں ہوتا تھا، منافقین کی یہ نمازیں صرف مسلمانوں کے دکھلاوے کے لیے تھیں، اس لیے جن نمازوں میں چھپنے کی گنجائش ہوتی اس میں وہ غیر حاضر رہتے، جیسے صبح اور عشاء کی نماز۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’منافقین پر صبح اور عشاء کی نماز تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہے، حالانکہ اگر وہ جانتے کہ ان کا کیا ثواب ہے تو وہ ان میں حاضر ہوتے، چاہے انھیں ان میں گھسٹ کر آنا پڑتا۔‘‘ [ بخاری، الأذان، باب فضل فی صلوۃ العشاء....: ۶۵۷۔ مسلم : 652،651 ] 3۔ لَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا: یعنی جلدی جلدی، جیسے کوئی بیگار ٹالنا مقصود ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ منافق کی نماز ہے، بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ( یعنی غروب کے بالکل قریب) ہو جاتا ہے، تو اٹھتا ہے اور چار ٹھونگے مار لیتا ہے، ان میں اللہ کو یاد نہیں کرتا مگر بہت کم۔‘‘ [ مسلم، المساجد، باب استحباب التبکیر : ۶۲۲ ] معلوم ہوا کہ عصر کی نماز دیر سے پڑھنا بھی نفاق ہے اور جلدی جلدی اکٹھے دو سجدے بھی، جن میں وقفہ نہ ہو، ایک ہی سجدہ ہوتے ہیں، ورنہ آپ چار کے بجائے آٹھ ٹھونگے فرماتے۔