سورة الاخلاص - آیت 1

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

کہہ دے وہ اللہ ایک ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ: اس کی ترکیب کئی طرح سے کی گئی ہے، زیادہ واضح دو ہیں: (1) ’’ هُوَ ‘‘ مبتدا ہے، لفظ ’’اللّٰهُ ‘‘ پہلی خبر اور’’ اَحَدٌ ‘‘ دوسری خبر۔ معنی یہ ہوگا : ’’(ہمارے جس رب کا نسب پوچھ رہے ہو) وہ اللہ ہے ( وہ) ایک ہے۔‘‘ (2) ’’ هُوَ ‘‘ مبدل منہ اور لفظ ’’اللّٰهُ ‘‘ بدل، دونوں مل کر مبتدا اور ’’ اَحَدٌ ‘‘ خبر ہے۔ معنی یہ ہو گا : ’’وہ اللہ (جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو) ایک ہے۔‘‘ 2۔ کائنات کے خالق اور پروردگار کے بے شمار ناموں میں سے لفظ ’’ اللّٰهُ ‘‘ بطور علم یعنی اصل نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے، باقی نام اس کی کسی نہ کسی صفت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اس اصل ’’اَلْإِلٰهُ‘‘ ہے، ’’إِلٰهٌ‘‘ کا معنی معبود ہے۔ تو لفظ ’’ اللّٰهُ ‘‘ کا معنی یہ ٹھہرا کہ وہ خاص ہستی جو عبادت کے لائق ہے، کیونکہ اس میں کمال کی تمام صفات پائی جاتی ہیں۔ ’’هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ وہ رب جس کے متعلق تم پوچھ رہے ہو وہ کوئی نئی یا نامعلوم ہستی نہیں، بلکہ وہ اللہ ہے جسے تم بھی جانتے اور مانتے ہو، وہی جو معبود برحق ہے اور وہ اللہ ایک ہے۔ اللّٰهُ اَحَدٌ: اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کے تین معانی ہو سکتے ہیں اور تینوں یہاں درست ہیں، پہلا یہ کہ وہ ایک ذات ہے، دو یا تین یا زیادہ نہیں اور اس کی ذات میں تعدد نہیں، دوسرا یہ کہ وہ معبود برحق ہونے میں اکیلا ہے، اس کا کوئی ثانی یا شریک نہیں اور تیسرا یہ کہ وہ ایک ہے، اس کی تقسیم نہیں ہو سکتی اور نہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ اس ایک ہی آیت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی بھی قسم کا شریک بنانے والوں کی تردید ہوگئی، خواہ وہ مجوس ( آتش پرست) ہوں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خیر کا خالق (یزداں) اور دوسرا شر کا خالق ( اہرمن)، خواہ تثلیث ( تین خداؤں) کو ماننے والے ہوں، خواہ ہندو ہوں جو کروڑوں دیوتاؤں کو خدائی میں حصے دار مانتے ہیں اور خواہ وہ وحدت الوجود کے قائل ہوں جو ہر چیز ہی کو اللہ مانتے ہیں، کیونکہ اگر ہر چیز ہی اللہ ہے یا ہر چیز میں اللہ ہے تو اللہ ایک تو نہ رہا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے، اس میں تعدد اور کثرت نہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کے عقیدہ کی بھی تردید ہو گئی جو اللہ کے علاوہ کسی کو عالم الغیب یا اختیارات کا مالک سمجھ کر مدد کے لیے پکارتے ہیں اور انھیں خدائی اختیارات میں اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو اللہ کی ذات سے ٹکڑوں کے جدا ہونے کے قائل ہیں، کوئی کہتا ہے عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، کوئی کہتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے پیدا ہوئے ہیں، کیونکہ ان تمام صورتوں میں کوئی نہ کوئی ہستی اللہ کی شریک ٹھہرتی ہے اور وہ ایک نہیں رہتا۔ میں نے ایک صاحب کی تقریر سنی، وہ کہہ رہے تھے : ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے نور میں سے نور کس طرح جدا ہو سکتا ہے؟ میں آپ کو مثال سے سمجھاتا ہوں، دیکھیے! یہ ایک موم بتی جل رہی ہے، اس میں سے ایک اور موم بتی جلا لیں تو کیا پہلی کے نور میں کوئی کمی واقع ہو گی ؟ ہر گز نہیں، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور میں سے نور ہیں اور اللہ کے نور میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔‘‘ اس بے چارے نے یہ نہ سمجھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مثالیں بیان کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے : ﴿ فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [النحل : ۷۴ ] ’’پس تم اللہ کے لیے مثالیں مت بیان کرو، کیونکہ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘ اور نہ یہ سمجھا کہ پہلی موم بتی میں کوئی کمی ہو یا نہ ہو، دو موم بتیاں تو بن گئیں، جب کہ اللہ ایک ہے اور نہ یہ سمجھا کہ اللہ کا نور نہ کسی سے نکلا ہے اور نہ اس سے کوئی نکلتا ہے۔ یہ عقیدہ تو بعینہ وہی عقیدہ ہے جو نصرانیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق اختیار کیا۔ اسی طرح ’’ اللّٰهُ اَحَدٌ ‘‘ سے ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ بندہ جب زیادہ عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس میں اتر آتا ہے، پھر وہ اللہ ہی بن جاتا ہے اور دلیل میں صحیح بخاری کی وہ حدیث پیش کرتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا فرمان نقل ہوا ہے کہ میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے…۔ ان لوگوں نے سورۂ اخلاص پر غور نہ کیا کہ اس صورت میں اللہ ایک تو نہ رہا ،جبکہ اس کا سب سے پہلا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ایک ہے اور نہ اس حدیث کے آخر پر غور کیا جس میں واضح الفاظ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرا وہ بندہ اگر مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں گا اور اگر مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دوں گا۔ اگر ’’من تو شدم تو من شدی‘‘ کے مطابق اللہ اور بندہ ایک ہوگئے تو پھر مانگے گا کون اور دے گا کون؟ پناہ مانگنے والا کون ہوگا اور پناہ دینے والا کون؟ اسی طرح ان لوگوں کی بھی تردید ہو گئی جو کہتے ہیں کہ بندہ عبادت کرتے کرتے اللہ کے ساتھ اس طرح واصل ہو جاتا ہے کہ وہ وہی بن جاتا ہے، جس طرح لوہا گرم ہوتے ہوتے آگ بن جاتا ہے۔ اس غلطی کی بنیادی وجہ بھی اللہ کے لیے مخلوق کی مثالیں بیان کرنا ہے، جبکہ اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ ان بے چاروں نے یہ نہ سوچا کہ آیت ﴿اللّٰهُ اَحَدٌ ﴾ ( اللہ ایک ہے) اس کی نفی کر رہی ہے، بندہ تو اللہ سے الگ ایک ذات ہے۔ مخلوق اور خالق دو ہیں ایک نہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے، دو ایک کیسے بن گئے؟ یہ تو وہی نصرانیوں والا عقیدہ ہے کہ باپ خدا، بیٹا خدا، روح القدس خدا، مگر تین نہیں بلکہ ایک خدا۔ اللہ کے بندو! دو یا تین ایک کیسے بن گئے؟ الغرض، یہ ایسی مبارک سورت ہے کہ اللہ کی توحید کے خلاف جتنے عقیدے ہیں اور ان کی جتنی بھی توجیہیں کی جاتی ہیں، یہ اکیلی سورت بلکہ اس کی ایک آیت ہی ان کی تردید کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرآن کا ثلث(ایک تہائی) قرار دیا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟