بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔
سورة اللهب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ جب (سورۂ شعراء کی) آیت: ﴿ وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ﴾ (اے نبی! اپنے سب سے قریبی خاندان والوں کو ڈرا) اتری تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے اور آواز دی : (( يَا بَنِيْ فِهْرٍ! يَا بَنِيْ عَدِيٍّ ! لِبُطُوْنِ قُرَيْشٍ حَتَّی اجْتَمَعُوْا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ إِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَّخْرُجَ أَرْسَلَ رَسُوْلاً لِيَنْظُرَ مَا هُوَ، فَجَاءَ أَبُوْ لَهَبٍ وَقُرَيْشٌ فَقَالَ أَرَأَيْتَكُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلاً بِالْوَادِيْ تُرِيْدُ أَنْ تُغِيْرَ عَلَيْكُمْ ، أَكُنْتُمْ مُصَدِّقِيَّ؟ قَالُوْا نَعَمْ، مَا جَرَّبْنَا عَلَيْكَ إِلاَّ صِدْقًا، قَالَ فَإِنِّيْ نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ، فَقَالَ أَبُوْ لَهَبٍ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ، أَلِهٰذَا جَمَعْتَنَا ؟ فَنَزَلَتْ : ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (1) مَا اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ ﴾)) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿وأنذر عشیرتک الأقربین....﴾ : ۴۷۷۰ ] ’’اے بنی فہر! اے بنی عدی!‘‘ اور قریش کے قبیلوں کے نام لے لے کر پکارا، یہاں تک کہ وہ جمع ہو گئے۔ کوئی آدمی خود نہ آسکا تو اس نے کسی کو بھیج دیا تاکہ دیکھے کہ کیا بات ہے۔ ابولہب اور قریش کے دوسرے لوگ آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’یہ بتاؤ کہ اگر میں تمھیں اطلاع دوں کہ وادی میں ایک لشکر تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہاں! ہم نے آپ سے سچ کے علاوہ کبھی کوئی اور تجربہ نہیں کیا(یعنی آپ کو ہمیشہ سچا ہی پایا)۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’تو پھر میں تمھیں ایک سخت عذاب سے پہلے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ ابو لہب کہنے لگا : ’’سارا دن تیرے لیے ہلاکت ہو! تونے ہمیں اسی لیے جمع کیا ہے؟‘‘ تو یہ سورت اتری : ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (1) مَا اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَ ﴾ ’’ابو لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوگئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا۔ نہ اس کے کام اس کا مال آیا اور نہ جو کچھ اس نے کمایا۔‘‘