سورة النصر - آیت 1

إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ....: ابن کثیر نے فرمایا کہ ’’ الْفَتْحُ ‘‘ سے مراد یہاں فتح مکہ ہے، اس پر اتفاق ہے۔ عرب کے قبائل اسلام قبول کرنے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اپنی قوم پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے مکہ فتح فرما دیا تو وہ فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس کے بعد دو سال نہیں گزرے تھے کہ سارا عرب مسلمان ہو گیا اور تمام قبائل میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اسلام کا اقرار نہ کرتا ہو۔ (الحمدللہ) بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا، جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے چاہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو کر پہلے اسلام قبول کر لے اور تمام قبائل اپنے مسلمان ہونے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اسے اور اس کی قوم کو چھوڑدو، اگر یہ ان پر غالب آگیا تو بلاشبہ وہ نبی ہے۔ [ دیکھیے بخاري، المغازي، باب : ۴۳۰۲ ] 2۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے شیوخ بدر کی موجودگی میں مجھے بلوایا اور حاضرین سے پوچھا : ’’اللہ تعالیٰ کے فرمان : ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ﴾ کے متعلق تم کیا کہتے ہو؟‘‘ تو ان میں سے بعض نے کہا کہ اس میں ہمیں حکم ہوا ہے کہ جب ہمیں فتح و نصرت حاصل ہو تو اللہ کی حمد اور استغفار کریں اور بعض خاموش رہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ابن عباس! تم بھی یہی کہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا :’’ نہیں!‘‘ فرمایا: ’’تو تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا : ’’اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا وقت ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اطلاع دی ہے، فرمایا : ﴿ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ﴾ ’’جب اللہ کی نصرت اور فتح آگئی۔‘‘ یہ (فتح و نصرت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی علامت ہے، لہٰذا اب آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجیے اور اس سے استغفار کیجیے، یقیناً وہ تواب ہے۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’جو کچھ تم کہہ رہے ہو اس سورت کے متعلق مجھے بھی یہی معلوم ہے۔‘‘ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿فسبح بحمد ربک....﴾ : ۴۹۷۰ ] 3۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شیوخ بدر نے جو تفسیر کی ہے وہ بھی بہت خوب صورت مفہوم ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد آٹھ رکعات ادا فرمائیں۔ اس لیے امیر لشکر کے لیے مستحب ہے کہ کوئی شہر فتح کرنے کے بعد اس میں داخل ہو تو آٹھ رکعات (نوافل) پڑھے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے مدائن فتح کیا تو ایسے ہی کیا تھا۔ البتہ عمر بن خطاب اور ابن عباس رضی اللہ عنھم نے جو مفہوم سمجھا ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی موت کی اطلاع دی گئی ہے، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا کام مکمل ہو چکا، اب آپ کو ہمارے پاس آنے کی تیاری کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی سمجھا، اس لیے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیح و تحمید اور استغفار کثرت سے کرنے لگے۔ 4۔ اس سورت کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے سے بھی زیادہ آخرت کی تیاری شروع کر دی اور زیادہ سے زیادہ تسبیح و تحمید اور استغفار کرنے لگے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ ’’ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ ‘‘ نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی جس میں یہ نہ پڑھا ہو: (( سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ : ﴿إذا جاء نصر اللّٰہ﴾ : ۴۹۶۷ ] ’’ تو (ہر عیب سے ) پاک ہے، اے ہمارے پروردگار! ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ بخاری کی اس سے بعد والی روایت بھی عائشہ رضی اللہ عنھا ہی سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں کثرت سے یہ دعا پڑھتے تھے : (( سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ )) [ بخاري، التفسیر، سورۃ : ﴿إذا جاء نصر اللّٰہ﴾ : ۴۹۶۸ ] ’’اے ہمارے اللہ! اے ہمارے پروردگار! تو (ہر عیب سے) پاک ہے، ہم تیری تعریف اور پاکی بیان کرتے ہیں، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا قرآن پر عمل کرتے ہوئے پڑھتے تھے۔ 5۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ جَلَسَ فِيْ مَجْلِسٍ فَكَثُرَ فِيْهِ لَغَطُهُ فَقَالَ قَبْلَ أَنْ يَّقُوْمَ مِنْ مَّجْلِسِهِ ذٰلِكَ : سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ، إِلاَّ غُفِرَ لَهُ مَا كَانَ فِيْ مَجْلِسِهِ ذٰلِكَ )) [ ترمذي، الدعوات، باب ما یقول إذا قام من مجلسہ:۳۴۳۳، وقال الألباني صحیح ] ’’جو شخص کسی مجلس میں بیٹھے اور اس میں شور و غل زیادہ کر بیٹھے، پھر اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے یہ پڑھ لے تو اس مجلس میں اس سے جو کچھ ہوا وہ معاف کر دیا جاتا ہے : (( سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوْبُ إِلَيْكَ ))’’اے اللہ! تو پاک ہے اور تیری حمد کے ساتھ (ہم تیری تعریف کرتے ہیں)، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتاہوں۔‘‘ 6۔’’ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا ‘‘ میں ’’ كَانَ ‘‘ استمرار کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے : ’’ یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘