إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ
یقیناً تیرا دشمن ہی لاولد ہے۔
1۔ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ: ’’شَانِئٌ‘‘ ’’ شَنِئَهٗ شَنْئًا ‘‘ (س، ف) (بروزن فَلْسٌ ) ’’وَشَنَئَانًا‘‘ (نون کے فتحہ اور سکون کے ساتھ) سے اسم فاعل ہے، اس کا معنی ’’دشمنی رکھنے والا‘‘ ہے۔ ’’ الْاَبْتَرُ ‘‘ جس کی اولاد نہ ہو۔ اصل میں یہ ’’ بَتَرَهٗ ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے ’’ قَطَعَهٗ ‘‘ اس نے اسے کاٹ دیا۔ ’’حِمَارٌ أَبْتَرُ ‘‘ وہ گدھا جس کی دم کٹی ہوئی ہو۔ دم کٹے سانپ کو بھی ’’ابتر ‘‘ کہتے ہیں۔ 2۔ ’’ هُوَ ‘‘ ضمیر لانے کے علاوہ ’’ الْاَبْتَرُ ‘‘ پر الف لام لانے سے کلام میں مزید حصر پیدا ہوگیا، یعنی دشمن ہی لاولد ہے، تم نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کہتے تھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اکیلے ہیں، ان کی اولاد نہیں، مر گئے تو کوئی نام لینے والا نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپ کے نام لینے والے بے شمار ہوں گے اور قیامت تک رہیں گے۔ کلمہ پڑھتے وقت، اذان میں، اقامت میں، نماز میں، درود میں، غرض آپ کا ذکر ہمیشہ رہے گا۔ آپ کی نسبت پر لوگ فخر کریں گے۔ اولاد بھی بہت ہوگی، مگر آپ کے دشمن کا کوئی نام لیوا نہیں ہوگا۔ اگر ان کی نسل چلی بھی تو اسے اپنے کافر باپ کی طرف منسوب ہونے پر کوئی فخر نہیں ہو گا۔