فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ
پس تو اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
1۔ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْ: عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ اس آیت میں نماز پڑھنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا گیا ہے، حالانکہ یہاں اصل مفہوم یہ ہے کہ نماز پڑھو تو صرف اپنے رب کے لیے اور قربانی کرو تو وہ بھی اسی کے لیے، کسی غیر کے لیے نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی سے کہا جائے، کھڑے ہو کر نماز پڑھو، تو اس سے مراد نماز پڑھنے کا حکم دینا نہیں ہوتا بلکہ مراد یہ حکم ہوتا ہے کہ نماز کھڑے ہو کر پڑھو، بیٹھ کر نہ پڑھو۔ یہی مفہوم سورۂ انعام میں بھی ادا ہوا ہے، فرمایا : ﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (162) لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۶۲، ۱۶۳ ] ’’کہہ دے بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لیے ہے، جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوں۔‘‘ 2۔ اللہ تعالیٰ نے کوثر عطا فرمانے کا احسان ذکر کرکے صرف رب تعالیٰ ہی کے لیے نماز اور قربانی کا حکم دیا۔ ’’ الْكَوْثَرَ ‘‘ (خیر کثیر) کے لفظ میں وہ سب کچھ آگیا جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا، کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں شامل نہ ہو۔’’ فَصَلِّ ‘‘ کی فاء کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی ہے تو اس کے شکر کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کی ہر عبادت (بدنی ہو یا مالی) صرف اسی کے لیے ہونی چاہیے، کسی غیر کے لیے نہیں۔ یہ انتہائی ناشکری ہے کہ ہر نعمت اللہ نے دی ہو اور بدنی یا مالی بندگی کسی اور کی ہو۔ 3۔ بظاہر کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم نے تجھے کوثر عطا کی، پس تو ہمارے ہی لیے نماز پڑھ اور قربانی کر، مگر فرمایا: ’’ تو اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔‘‘ اسے ’’اِلْتِفَاتٌ مِّنَ الْمُتَكَلِّمِ إِلَي الْغَائِبِ‘‘ کہتے ہیں۔ مقصد توجہ دلانا ہے کہ رب ہونے کی وجہ سے ہمارا حق ہے کہ ہماری ہی عبادت کرو، کسی اور کی نہیں۔ 4۔ بعض روایات میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ’’ وَ انْحَرْ ‘‘ کا معنی نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہے، مگر وہ روایات صحیح نہیں۔ البتہ سینے پر ہاتھ باندھنے کا مسئلہ دوسری صحیح احادیث سے ثابت ہے۔