وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَإِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا
اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور بلاشبہ یقیناً ہم نے ان لوگوں کو جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور تمھیں بھی تاکیدی حکم دیا ہے کہ اللہ سے ڈرو اور اگر تم کفر کرو گے تو بے شک اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر طرح بے پروا، ہر تعریف کا حق دار ہے۔
1۔ وَ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ: گزشتہ آیات میں عورتوں اور یتیم بچوں سے متعلق احکام بیان کیے گئے تھے، اب جو یہ فرمایا کہ زمین و آسمان کی ہر شے اللہ کی ہے، تو اس سے لوگوں کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ان احکام پر عمل کرنے میں تمھارا ہی فائدہ ہے، اللہ تعالیٰ کسی کے فائدے اور نقصان سے بے نیاز ہے۔ 2۔ وَ لَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ ....: یعنی تم سے پہلے لوگوں کو اور تم سب کو اس بات کا تاکیداً حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو، یعنی اس کے دیے گئے احکام پر عمل کرو۔ یہ جملہ ”اتَّقُوا اللّٰهَ“ قرآن کی تمام آیات کے لیے بمنزلہ رحی (چکی) کے ہے کہ اسی کی لٹھ پر تمام آیات گھومتی ہیں۔ ابن عاشور رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’قرآن مجید میں اللہ کے اسماء کے بعد سب سے زیادہ اسی کا ذکر ہوا ہے۔‘‘ 3۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’تین بار فرمایا کہ اللہ کا ہے جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، پہلی بار کشائش( کھلا رزق دینے) کا بیان ہے (کہ علیحدگی کی صورت میں اللہ تعالیٰ دونوں کو غنی کر دے گا، کیونکہ جو کچھ بھی ہے اللہ ہی کا ہے، جسے جس طرح چاہے دیتا ہے) دوسری دفعہ اس کی بے پروائی کا بیان ہے کہ اگر تم کفر کرو، منکر بنو (تو اللہ بھی بے پروا ہے، کیونکہ سبھی کچھ اس کا ہے) اور تیسری بار اللہ کے کارساز ہونے کا بیان ہے کہ اگر تم تقویٰ اختیار کرو (تو وہ کافی وکیل ہے)۔‘‘ (موضح)