إِنَّ الْإِنسَانَ لِرَبِّهِ لَكَنُودٌ
بے شک انسان اپنے رب کا یقیناً بہت ناشکرا ہے۔
اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌ....: ’’ كَنَدَ يَكْنُدُ ‘‘ (ن) ’’كُنُوْدًا‘‘ (کاف کے ضمہ کے ساتھ) ’’اَلنِّعْمَةَ‘‘ نعمت کا انکار کرنا، ناشکری کرنا۔ ’’كَنُوْدٌ ‘‘ ( کاف کے فتحہ کے ساتھ ) بروزن ’’ فَعُوْلٌ‘‘ بمعنی فاعل برائے مبالغہ ہے، بہت ناشکری کرنے والا۔ یہ مذکر و مؤنث دونوں کے لیے آتا ہے۔ اصل میں ’’كَنُوْدٌ‘‘ اس زمین کو کہتے ہیں جو کوئی چیز نہ اگاتی ہو۔ اس سورت میں پہلی پانچ آیات میں قسمیں اٹھانے کے بعد چھٹی آیت میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ انسان یقیناً اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ یہ پانچوں قسمیں اس دعوے کی دلیل اور شاہد کے طور پر لائی گئی ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ گھوڑے اپنے مالک کے ایسے وفادار اور شکر گزار ہیں کہ رات جب وہ انھیں لے کر نکلتے ہیں تو وہ بلاچون و چرا چل پڑتے ہیں، نہ اپنے آرام کی پروا کرتے ہیں اور نہ رات کی تاریکی کی، پھر وہ مالک کے کہنے پر صدق نیت کے ساتھ اس طرح سرپٹ دوڑتے ہیں کہ ان کے جوف سے آواز نکلنے لگتی ہے اور تیزی سے دوڑتے ہوئے ان کے سم جہاں پڑتے ہیں ان کی ٹھوکر اور رگڑ کے ساتھ پتھروں سے چنگاریاں نکلتی جاتی ہیں۔ پھر صبح کے وقت جب ہر چیز آرام کر رہی ہوتی ہے، ان کے مالک انھیں لے کر دشمن کو لوٹنے کے لیے دھاوا بولتے ہیں تو اس وقت بھی وہ غبار اڑاتے ہوئے دوڑتے چلے جاتے ہیں، خواہ غبار کے ساتھ سانس گھٹ رہا ہو، یا آگے دشمن کی تلواریں، تیر اور نیزے ان کے سینے چھید رہے ہوں، یہ کسی بھی چیز کی پروا نہ کرتے ہوئے اسی حالت میں دشمن کی جماعت کے وسط میں جا گھستے ہیں ۔ گھوڑے اپنے اس مالک کے لیے اتنی تگ و دو کرتے ہیں جو ان کی تھوڑی بہت خدمت کرتا ہے، جس نے نہ انھیں پیدا کیا ہے اور نہ ان کا حقیقی رازق ہے، تو کیا انسان اللہ تعالیٰ کے کہنے پر جو اس کا خالق بھی ہے، مالک اور رازق بھی اتنی تگ و دو کرنے اور قربانی دینے پر تیار ہے؟ وہ خود مانے گا کہ یقیناً نہیں، تو پھر اس کے ناشکرا ہونے میں کیا شک ہے؟