لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ
قدر کی رات ہزار مہینے سے بہتر ہے۔
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ: یعنی لیلۃ القدر اپنی برکتوں اور عبادت کے اجرو ثواب کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جن میں یہ رات نہ ہو۔ پھر ہزار ماہ سے یا تو یہ عدد مراد ہے یا عربوں کے عام دستور کے مطابق کثرت مراد ہے جو اس عدد سے بھی زیاہ ہو سکتی ہے۔ یہاں بعض مفسرین نے بنو امیہ کے ایام حکومت ( جو ایک ہزار ماہ تھے) کی مذمت میں ایک روایت لکھی ہے، حالانکہ ترمذی رحمہ اللہ نے اسے روایت کرکے خود ہی ضعیف قرار دیا ہے۔ [ دیکھیے ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورۃ لیلۃ القدر : ۳۳۵۰ ] اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ بنو امیہ کا عہد اگرچہ خلفائے راشدین کے عہد کا مقابلہ نہیں کر سکتا، مگر وہ بھی اسلام کے عروج کا عہد ہے جس میں اسلام کا پھریرا مشرق سے مغرب تک لہرایا۔ انھی کے عہد تک پورا عالم اسلام ایک خلیفہ کے تحت رہا اور اسلام غالب، سر بلند اور محفوظ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((لَا يَزَالُ هٰذَا الدِّيْنُ عَزِيْزًا مَنِيْعًا إِلَی اثْنَيْ عَشَرَ خَلِيْفَةً، كُلُّهُمْ مِّنْ قُرَيْشٍ)) [ مسلم، الإمارۃ، باب الناس تبع لقریش....:9؍1821، عن جابر بن سمرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’یہ دین بارہ خلفاء تک غالب و محفوظ رہے گا،جو سب قریش سے ہوں گے۔‘‘ ابو داؤد میں انھی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی الفاظ یہ ہیں : (( لاَ يَزَالُ هٰذَا الدِّيْنُ قَائِمًا حَتّٰی يَكُوْنَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيْفَةً، كُلُّهُمْ تَجْتَمِعُ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ، كُلُّهُمْ مِّنْ قُرَيْشٍ)) [ أبو داؤد، کتاب المھدي : ۴۲۷۹، وقال الألباني صحیح ] ’’یہ دین قائم رہے گا حتیٰ کہ بارہ خلفاء ہوں، جن سب پر امت جمع ہو گی، سب کے سب قریش سے ہوں گے۔‘‘ روافض اور ان سے متاثر لوگ اسلام کے اس سنہرے دور کے متعلق فضول باتیں کرتے رہتے ہیں، حالانکہ اس کے بعد نہ امت مسلمہ کو ایک خلیفہ پر جمع ہونے کی سعادت حاصل ہوسکی اور نہ اسلام اس طرح غالب رہا جس طرح ان کے عہد میں غالب تھا۔