وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا
اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے تابع کردیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہوجانے والا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔
1۔ وَ مَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا.... : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عمل کی قبولیت کی شرطیں بیان کی ہیں، پہلی یہ کہ اپنا چہرہ اللہ تعالیٰ کے تابع کر دے۔ دوسری یہ کہ وہ محسن ہو، تیسری یہ کہ ملت ابراہیم کی پیروی کرے، جو حنیف تھے۔ چہرہ تابع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ کے سپرد کر دے، اپنی مرضی ختم کر کے اس کی مرضی پر چلے، یہ ایمان ہے۔ محسن ہونے کا مطلب ہے کہ ہر عمل خالص اللہ کے لیے کرے ، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کے بارے میں فرمایا : (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ )) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبیّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۵۰ ]اور ملت ابراہیم کی پیروی کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پوری طرح فرماں بردار ہو جائے، کیونکہ اب قیامت تک ملت ابراہیم پر قائم صرف امت مسلمہ ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِيُّ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ﴾ [ آل عمران : ۶۸ ] ’’بے شک سب لوگوں سے ابراہیم کے قریب یقیناً وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے۔‘‘ اور دیکھیے سورۂ نحل (۱۲۳) اگر ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں، احسان و خلوص نہیں تو ریا ہے، جو شرک ہے اور نبی کے طریقے پر نہیں تو سنت نہیں، بلکہ بدعت ہے۔ 2۔ خَلِيْلًا: جس کی دوستی دل کے درمیان پہنچ جائے اور اس میں کسی پہلو سے بھی کوئی خامی نہ رہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی خلیل بنایا ہے جس طرح اس نے ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنایا۔‘‘ [ مسلم، المساجد، باب النھی عن بناء المساجد علی القبور....: ۵۳۲ ]