فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ
تو جب تو فارغ ہوجائے تو محنت کر۔
1۔ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ ....: آپ کے دنیا کے کام ہوں یا تبلیغ دین یا جہاد فی سبیل اللہ، اگرچہ یہ سب عبادات اور نیکیاں ہیں مگر ان میں پھر بھی مخلوق سے کچھ نہ کچھ رابطہ رہتا ہے، جب بھی ان کاموں سے کچھ فراغت ملے، تو ہر چیز سے منقطع ہو کر اپنے رب سے تعلق جوڑکر ذکر الٰہی، تلاوتِ قرآن، قیام اور رکوع و سجود کی محنت کریں اور اپنی تمام رغبت اپنے رب ہی کی طرف رکھیں۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ مزمل کے شروع میں کہی گئی ہے، فرمایا : ﴿ اِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا (7) وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَيْهِ تَبْتِيْلًا ﴾ [المزمل: 8،7] ’’یقیناً تجھے دن میں بہت لمبی مصروفیت ہے اور اپنے رب کا نام ذکر کر اور ہر طرف سے کٹ کر اسی کی طرف متوجہ ہو جا۔‘‘ 2۔ فَانْصَبْ:’’نَصِبَ يَنْصَبُ نَصْبًا‘‘ (س) کے مفہوم میں محنت و مشقت کے ساتھ تھکن بھی شامل ہے، یعنی صرف راحت کے وقت ہی نہیں، طبیعت کے نہ چاہتے ہوئے بھی عبادت اور ذکر الٰہی کی مشقت جاری رکھ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت اتنا قیام کرتے کہ آپ کے پاؤں پر ورم آجاتا، جیسا کہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے۔