ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ
پھر ( یہ کہ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔
ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ....: جنت کی بلندیوں پر پہنچنے کے لیے یہی کافی نہیں کہ گردنیں آزاد کرے یا یتیم اور مسکین کو کھانا کھلائے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ایمان بھی ضروری ہے، اگر ایمان نہیں تو کوئی عمل قبول نہیں۔ (دیکھیے نساء : ۱۴۴۔ نحل : ۹۷۔ بنی اسرائیل : ۱۹) پھر ایمان اور عملِ صالح کے ساتھ ایک دوسرے کو صبر اور رحم کرنے کی وصیت اور تاکید بھی ضروری ہے۔ سورۂ عصر میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ ’’ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا‘‘کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ مشکل گھاٹی کی چڑھائی کے لیے جو امور ضروری ہیں ان میں پہلے گردن چھڑانا اور یتیم یا مسکین کو کھانا کھلانا ہے، پھر اس کے بعد ایمان لانا اور حق و مرحمت کی وصیت کرنا ہے، مگر اہلِ علم فرماتے ہیں کہ’’ ثُمَّ‘‘ ہمیشہ ترتیب زمانی کے لیے نہیں ہوتا، بعض اوقات ترتیب ذکری کے لیے بھی ہوتا ہے، یعنی موقع کی مناسبت سے بعد کی ایک چیز پہلے ذکر کر دی جاتی ہے۔ یہاں مال داروں کے لیے خرچ کرنا چونکہ بہت مشکل کام ہے اس لیے پہلے اس کا ذکر فرمایا، پھر ایمان اور تواصی بالحق والمرحمہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ ایمان کے بغیر گردن چھڑانا، کھانا کھلانا یا نیکی کا کوئی بھی کام بے سود ہے۔