هَلْ فِي ذَٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِي حِجْرٍ
یقیناً اس میں عقل والے کے لیے بڑی قسم ہے۔
1۔ هَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍ : ’’ هَلْ ‘‘ کے معنی کے لیے دیکھیے سورۂ دہر کی پہلی آیت۔ ’’حَجَرَ يَحْجُرُ‘‘ (ن) منع کرنا، روکنا۔ عقل کو ’’ حِجْرٍ ‘‘ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ آدمی کو ہر غلط کام سے روکتی اور منع کرتی ہے۔ 2۔ قرآن مجید میں مذکور قسمیں عام طور پر کسی نہ کسی بات کی شہادت اور دلیل کے لیے آتی ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قسمیں کھا کر عقل والوں کو کیا باور کروایا جارہا ہے؟ جواب اگرچہ لفظوں میں موجود نہیں مگر آئندہ آیات سے صاف واضح ہے، یعنی ان سب چیزوں پر غور کرو تو تمھیں یقین ہو جائے گا کہ اتنے زبردست تغیرات لانے والا پروردگار اس بات پر قادر ہے کہ تمھیں دوبارہ زندہ کرکے تمھیں تمھارے اعمال کی جزا و سزا دے اور اگر تم سرکشی پر اڑے رہے تو عاد و ثمود اور قوم فرعون کی طرح دنیا میں بھی تم پر عذاب کا کوڑا برسا دے۔