فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذِّكْرَىٰ
سو تو نصیحت کر، اگر نصیحت کرنافائدہ دے۔
فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى ....: ’’ تو نصیحت کر اگر نصیحت کرنا فائدہ دے‘‘ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر نصیحت فائدہ نہ دے تو کیا نصیحت چھوڑ دی جائے؟ جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں، بلکہ نصیحت کرتے رہنا لازم ہے۔ تو پھر آیت کا مطلب کیا ہے؟ آیت کی مختلف تفاسیر میں سے تین تفسیریں زیادہ قریب ہیں : (1) تفسیر ثنائی میں ہے کہ اس آیت کی بنا پر بعض لوگ گمراہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ نصیحت کے نفع دینے کی صورت میں نصیحت کرنے کا حکم ہے ورنہ نہیں، یہ ان کی غلطی ہے۔ آیت میں ’’ اِنْ ‘‘ ہے کہ جب تک انسان کو کسی قطعی دلیل سے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ فلاں شخص کو نصیحت فائدہ نہ دے گی’’ اِنْ ‘‘ کا محل رہتا ہے اور قطعی دلیل صرف وحی الٰہی ہے۔ وحی کے بغیر ہر حال میں نصیحت کے مفید ہونے کا امکان باقی ہے، اس لیے جب تک تمھیں وحی الٰہی سے معلوم نہ ہو جائے کہ فلاں کو نصیحت نفع نہ دے گی وعظ و نصیحت کرتے جاؤ۔ ظاہر ہے کہ تمھارے پاس وحی الٰہی نہیں، اس لیے تم ہمیشہ نصیحت کرتے رہو۔ ( مختصراً ) (2) دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى ‘‘ (نصیحت کر، اگر نصیحت فائدہ دے)کا یہ مطلب نہیں کہ جسے نصیحت فائدہ دے اسے نصیحت کر دوسرے کو نہ کر، کیونکہ یہ تو معلوم ہی نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نصیحت کر اگر کسی ایک کو بھی نصیحت فائدہ دے ۔گویا ’’ نَفَعَتْ‘‘ کا مفعول محذوف ہے، یعنی ’’ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرٰي أَحَدًا ‘‘ اور ظاہر ہے کہ کسی نہ کسی کو تو فائدہ ہوتا ہی ہے، اس لیے آپ ہر شخص کو نصیحت کرتے جائیں۔ ’’ سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى ....‘‘ پھر ڈرنے والا قبول کرلے گا اور بدبخت اجتناب کرے گا، آپ کا کام نصیحت کرتے چلے جانا ہے اس امید پر کہ نصیحت کسی کو تو فائدہ دے گی۔ (3) تیسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ اِنْ ‘‘ حرف شرط ’’إِذْ‘‘ کے معنی میں ہے، یعنی نصیحت کر جب نصیحت کرنا فائدہ دے۔ موقع و محل کا خیال رکھو، بے موقع بات مؤثر نہیں ہوتی۔ جب دیکھو کہ سننے کی طرف مائل ہیں تو نصیحت کرو اور جب ضد اور سرکشی پر اترے ہوئے ہوں تو کنارہ کشی اختیار کرو، یہ نہیں کہ نصیحت ہی چھوڑ دو ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو، نوح اور دوسرے انبیاء علیھم السلام نے اپنی اپنی اقوام کو ان پر عذاب آنے تک نصیحت ترک نہیں کی۔