إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَا أَرَاكَ اللَّهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَائِنِينَ خَصِيمًا
بے شک ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ نازل کی، تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ نے تجھے دکھایا ہے اور تو خیانت کرنے والوں کی خاطر جھگڑنے والا نہ بن۔
1۔ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ : جمہور مفسرین نے ان آیات (۱۰5 سے ۱۱4 تک) کی شان نزول چوری کا ایک واقعہ بتایا ہے، جو ترمذی میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے اور شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ بشر، بشیر اور مبشر تین بھائی تھے، جو ابیرق یا طعمہ بن ابیرق کے بیٹے تھے۔ بعض نے کہا کہ ان میں سے بشیر کی کنیت ابو طعمہ تھی، یہ لوگ مدینہ کے قبیلہ بنو ظفر سے تھے۔ ان میں بشیر سب سے بد تر تھا، یہ شخص منافق تھا اور مسلمانوں کی ہجو کر کے وہ شعر دوسروں کے نام لگا دیتا تھا۔ یہ غریب فاقہ زدہ لوگ تھے اور رفاعہ بن زید کے ہمسائے تھے۔ ایک دفعہ شام سے ایک قافلہ میدہ لے کر آیا تو رفاعہ بن زید نے اس میں سے ایک بوری خرید لی۔ مدینہ کے لوگ آٹا کھاتے تھے، رہا میدہ تو وہ گھر کے بڑے آدمیوں کے لیے سنبھال کر رکھ لیا جاتا تھا۔ رفاعہ نے وہ میدہ اپنے اسلحہ کے سٹور میں اسلحہ کے ساتھ محفوظ کر دیا۔ ابیرق کے بیٹوں نے سٹور میں نقب لگا کر میدہ اور اسلحہ چرا لیا۔ صبح ہوئی تو رفاعہ نے اپنا اسلحہ اور میدہ نقب لگا کر چرانے کی بات اپنے بھتیجے قتادہ بن نعمان کے ساتھ کی۔ اب اس نے تفتیش شروع کی تو معلوم ہوا کہ اس رات ابیرق کے بیٹوں نے آگ جلائی تھی اور شاید انھوں نے رفاعہ کے میدہ ہی سے کھانا تیار کیا ہو۔ جب ابیرق کے بیٹوں کا راز فاش ہو گیا تو انھوں نے چوری کا وہ اسلحہ وغیرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دیا اور ان کے قبیلے بنو ظفر کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر شکایت کی کہ رفاعہ بن زید اور اس کے بھتیجے نے ہمارے ایک گھر والوں پر، جو ایمان دار اور نیک لوگ ہیں، چوری کا الزام لگا دیا ہے۔ قتادہ کہتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم نے بلا دلیل ایمان دار نیک لوگوں پر چوری کا الزام لگا دیا ہے۔‘‘ ان لوگوں نے مشہور کر دیا کہ مسروقہ سامان یہودی کے گھر سے نکلا ہے، تو اس پر یہ آیات اتریں۔ [ ترمذی، التفسیر، باب ومن سورۃ النساء : ۳۰۳۶ ] اللہ تعالیٰ نے معاملے کی حقیقت کھول دی، تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ جرم تو بنو ابیرق کا تھا، مگر مجرم یہودی کو بنا دیا گیا،کیونکہ وہ اپنا نہیں تھا۔ اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاف پر بہت بڑا دھبا آ سکتا تھا۔ 2۔ وَ لَا تَكُنْ لِّلْخَآىِٕنِيْنَ خَصِيْمًا: اس سے مراد ابیرق کے بیٹے ہیں کہ آپ ان کی حمایت نہ کریں، اس سے معلوم ہوا کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے، ورنہ اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانے کی ضرورت نہ تھی کہ ’’آپ ان خیانت کرنے والوں کی طرف سے جھگڑا نہ کریں۔‘‘