قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ
مارے گئے اس خندق والے۔
1۔ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ: ’’خَدَّ يَخُدُّ خَدًّا ‘‘ (ن) ’’ اَلْأَرْضَ وَ فِي الْأَرْضِ‘‘ زمین میں لمبا گڑھا کھودنا۔ ’’ الْاُخْدُوْدِ ‘‘ لمبا گڑھا۔ خندق، کھائی۔ اس کی جمع ’’أَخَادِيْدُ‘‘ ہے۔ یعنی عظیم الشان برجوں والا آسمان، قیامت کا دن، کسی بھی مقام پر حاضر ہونے والے لوگ اور کوئی بھی موقع جس میں لوگ حاضر ہوتے ہیں، یہ سب چیزیں اگر اپنا وجود رکھتی ہیں اور یقیناً ان کے وجود میں کوئی شبہ نہیں تو یہ بات بھی یقینی سمجھو کہ جن لوگوں نے بڑی بڑی خندقیں کھدوا کر انھیں آگ سے بھرا، پھر جو اہلِ ایمان اپنے ایمان پر ڈٹے رہے اور مرتد نہ ہوئے انھیں اس آگ میں پھینک کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھتے رہے، وہ مارے گئے، کیونکہ وہ زبردست ہستی جو ان برجوں والے آسمان کو تھامے ہوئے ہے، جس نے انصاف کے لیے قیامت کا دن مقرر کر رکھا ہے اور جس کی نگاہ سے نہ کسی جگہ کوئی حاضر ہونے والا غائب ہے اور نہ حاضری کا کوئی موقع، وہ ان سنگ دل ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا ضرور دے گا اور وہ نہ اس کی نگاہ سے غائب ہو سکیں گے اور نہ عذاب سے بچ سکیں گے۔ 2۔ دنیا میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں اہلِ ایمان کو خندق کھود کر آگ میں جلا دیا گیا، سند کے لحاظ سے سب سے صحیح ایک کافر بادشاہ کا وہ طویل واقعہ ہے جو صحیح مسلم میں صہیب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ حدیث لمبی ہے، اس کے آخر میں ہے کہ اس کافر بادشاہ کی رعایا کے لوگ مسلمان ہوگئے تو اس نے گلیوں کے کناروں پر گڑھے کھدوا کر ان میں آگ بھڑکائی اور حکم دیا کہ جو شخص اسلام نہ چھوڑے اسے آگ میں پھینک دو، چنانچہ اہلِ ایمان کو ان گڑھوں میں پھینک دیا گیا۔ مفصل واقعہ کے لیے دیکھیے صحیح مسلم میں ’’بَابُ قِصَّةِ أَصْحَابِ الْأُخْدُوْدِ (۳۰۰۵)۔‘‘ تفسیر ابن کثیر میں مومنوں کو آگ میں جلائے جانے کے مزید واقعات بھی موجود ہیں۔