لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ
کہ تم ضرور ہی ایک حالت سے دوسری حالت کو چڑھتے جاؤ گے۔
1۔ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ: قرآن مجید میں مذکور قسمیں بعد میں آنے والے جواب قسم کی تاکید کے لیے آتی ہیں اور عام طور پر اس کے یقینی ہونے کی دلیل ہوتی ہیں۔ یہاں جس بات کو ثابت کرنے کے لیے قسمیں کھائی گئی ہیں وہ یہ حقیقت ہے کہ تم ضرور ہی ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے جاؤ گے۔ اب قسموں پر غور کیجیے! تینوں آیات میں مذکور چیزوں کا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہونا صاف واضح ہے ، یعنی دن بھر کی دھوپ کے بعد سورج غروب ہو کر شفق پھیل جاتی ہے، پھر رات چھا جاتی ہے۔ اللہ کی مخلوق دن کو پھیل جاتی ہے اور رات کو جمع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح چاند پہلی رات خنجر نما شکل میں ہوتا ہے، پھر بدلتے بدلتے مَہِ کامل بن جاتا ہے، پھر دوبارہ گھٹنے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ اس بات کی دلیل ہے کہ تمھیں بھی ایک حالت پر دوام نہیں ہے، بلکہ ان اشیاء کی طرح تمھارا ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل ہوتے چلے جانا بھی یقینی ہے۔ اسی طرح زندگی کے بعد موت، پھر زندگی اور ہر عمل کی جزا و سزا کا ہونا بھی یقینی ہے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ‘‘ کی تفسیر فرمائی : (( حَالًا بَعْدَ حَالٍ )) [ بخاري، التفسیر، باب: ﴿لترکبن طبقا عن طبق ﴾ : ۴۹۴۰ ] ’’یعنی ایک حالت کے بعد دوسری حالت میں۔‘‘ آدمی ہر لمحے نئی سے نئی حالت میں منتقل ہوتا جائے گا۔ بڑے بڑے تغیرات یہ ہیں، مٹی سے پیدا ہو کر نطفہ، پھر ماں کے پیٹ کی مختلف حالتیں، پھر پیدائش، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تندرستی، بیماری، فقر، غنا، پھر موت، قبر اور قیامت، غرض انسان بے شمار احوال سے گزرتا ہوا جنت یا دوزخ کو پہنچ جائے گا۔