إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ
بے شک یہ یقیناً ایک ایسے پیغام پہنچانے والے کا قول ہے جو بہت معزز ہے۔
اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ : یہ ان قسموں کا جواب ہے، یعنی امر الٰہی کے پابند یہ سیارے، روزانہ جاتی ہوئی رات اور پھیلتی ہوئی صبح کا یہ مستحکم نظام زبردست شہادت ہے کہ یہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نہایت معزز اور ان عظیم صفات والا فرشتہ (جبریل علیہ السلام ) ہی لے کر آیا ہے۔ دن رات ، سورج چاند اور ستاروں کے نظام کی طرح یہاں بھی کسی شیطان کا دخل نہیں ہو سکتا۔ اس آیت میں ’’ رَسُوْلٍ ‘‘ سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں، کیونکہ مشرکین مکہ کبھی کہتے : ﴿ اِنَّمَا يُعَلِّمُهٗ بَشَرٌ ﴾ [ النحل : ۱۰۳ ] ’’اسے کوئی بشر ہی سکھاتا ہے۔‘‘ کبھی کہتے : ﴿ اَفْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَمْ بِهٖ جِنَّةٌ ﴾ [ سبا : ۸ ] ’’کیا اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا یا یہ دیوانہ ہے؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کے قول کے جھٹلانے کو یہ آیات نازل فرمائیں اور فرمایا کہ نہ اللہ کے رسول مجنون اور دیوانے ہیں، نہ انھوں نے اپنی طرف سے اس قرآن کو بنایا ہے اور نہ کسی انسان نے انھیں یہ قرآن سکھایا ہے۔ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس طرح شیاطین چوری سے آسمان کی کچھ باتیں سن کر کاہنوں سے کہہ دیتے ہیں، بلکہ پیغام کے طور پر اللہ کی طرف سے ایک صاحب قوت ، معتبر اور امانت دار فرشتے نے یہ قرآن اللہ کے نبی کو پہنچایا ہے ۔ (احسن التفاسیر)